پاخانہ کے آداب کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ وَ جَابِرِ وَاَنَسِ اَنَّ ہٰذِہِ الْاٰیَۃَ لَمَّا نَزَلَتْ فِیْہِ رِّجَالُ یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْ اوَاﷲُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمیَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ اِنَّ اﷲَ قَدْ اَثْنٰی عَلَیْکُمْ فِی الطُّھُوْرُ کُمْ قَالُوْا نَتَوَضَّأُ لِلصَّلٰوۃِ وَنَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَۃِ وَنَسْتَنْجِیْ بِالْمَآءِ قَالَ فَھُوَذَاکَ فَعَلَیْکُمُوْہُ۔ (رواہ ابن ماجۃ، التوبہ ١٠٨)
" حضرت ابوایوب، جابر، حضرت انس رضوان اللہ علیہم راوی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آیت (فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ) 9۔ التوبہ : 108) یعنی مسجد قبا میں ایسے مرد (انصاری) ہیں جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ خوب پاکی حاصل کریں اور اللہ خوب پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے پاکی کے معاملہ میں تمہاری تعریف کی ہے تمہاری پاکی کیا ہے؟ اور انہوں نے عرض کیا " ہم نماز کے لئے وضو کرتے ہیں" جنابت (ناپاکی) سے غسل کرتے ہیں (جیسا کہ دوسرے مسلمان کرتے ہیں) اور (ڈھیلے کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں ! وہ یہی ہے ، لہٰذا اسے لازم پکڑو۔" (ابن ماجہ)
تشریح :
انصاری کی عادت تھی کہ وہ پیشاب و پاخانہ کے بعد ڈھیلوں سے صفائی کے بعد پانی سے بھی استنجاء کرتے تھے، اس بنا پر ان کی فضیلت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی اور انصار کی اس فضیلت کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ کونسی پاکیزگی ہے جسے حاصل کرنے کے بعد تم اس سعادت کے حقدار ہوئے ہو، جب انہوں نے پاکیزگی کی تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق کر دی کہ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی سبب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں تمہاری تعریف کی ہے اور پھر بعد میں اس طرف اشارہ کر دیا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں ہے کہ اس سعادت کو ہمیشہ باقی رکھو یعنی جس طرح تم لوگ پاکی حاصل کرتے ہو اسی طرح ہمیشہ حاصل کرتے رہو۔