حدیث پڑھنے اور محدث کے سامنے پیش کرنے (پڑھنے) کا بیان اور حسن بصری اور سفیان ثوری اور امام مالک نے (بھی خود) پڑھ لینا کافی سمجھا ہے اور بعض محدثین نے عالم کے سامنے قرأت (کے کافی ہونے) میں ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پس وہ محدثین کہتے ہیں کہ (ضمام بن ثعلبہ کا) یہ قول نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہے (اور) ضمام نے اپنی قوم کو اس کی اطلاع کی اور قوم کے لوگوں نے اس کو کافی سمجھا اور (امام) مالک نے صک سے استدلال کیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سنایا اور معلم کے سامنے کتاب پڑھی جاتی ہے تو حاضرین کہتے ہیں کہ ہم فلاں شخص نے سنایا اور معلم کے سامنے کتاب پڑھی جاتی ہے تو پڑھنے والا کہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص نے پڑھایا۔
راوی: عبداللہ بن یوسف , لیث , سعید مقبری , شریک بن عبداللہ بن ابی نمر
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدٍ هُوَ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ شَرِيکِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ يَقُولُ بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَی جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ عَقَلَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ أَيُّکُمْ مُحَمَّدٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّکِئٌ بَيْنَ ظَهْرَا نَيْهِمْ فَقُلْنَا هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّکِئُ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَبْتُکَ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ إِنِّي سَائِلُکَ فَمُشَدِّدٌ عَلَيْکَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِکَ فَقَالَ سَلْ عَمَّا بَدَا لَکَ فَقَالَ أَسْأَلُکَ بِرَبِّکَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَکَ آللَّهُ أَرْسَلَکَ إِلَی النَّاسِ کُلِّهِمْ فَقَالَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُکَ بِاللَّهِ آللَّهُ أَمَرَکَ أَنْ تُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ قَالَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُکَ بِاللَّهِ آللَّهُ أَمَرَکَ أَنْ نَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنْ السَّنَةِ قَالَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُکَ بِاللَّهِ آللَّهُ أَمَرَکَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَی فُقَرَائِنَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ فَقَالَ الرَّجُلُ آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ رَوَاهُ مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا
عبداللہ بن یوسف، لیث، سعید مقبری، شریک بن عبداللہ بن ابی نمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص اونٹ پر (سوار آیا) اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد میں (لا کر) بٹھلایا اور اس کے پیر باندھ دیئے پھر اس نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے پوچھا کہ تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون ہیں! اور (اسوقت) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے، تو ہم لوگوں نے کہا کہ یہ صاف رنگ کے آدمی جوتکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہیں (انہی کا نام نامی محمد ہے) پھر اس شخص نے آپ سے کہا کہ اے عبدالمطلب کے بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہو (میں موجود ہوں) اس نے آپ سے کہا کہ میں آپ سے (کچھ) پوچھنا چاہتا ہوں اور پوچھنے میں آپ پر سختی کروں گا، آپ اپنے دل میں میرے اوپر ناراض نہ ہوں آپ نے فرمایا کہ جو تیری سمجھ میں آئے، پوچھ، وہ بولا کہ میں آپ کو آپ اور آپ سے پہلے تمام لوگوں کے پروردگار کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائے) کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے، پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ) بتائیے کہ کیا دن رات میں پانچ نمازوں کے پڑھنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کہ کیا اس مہینے (رمضان) کے روزے رکھنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے، پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کہ کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ یہ صدقہ ہمارے مال داروں سے لیں اور اسے ہمارے فقیروں پر تقسیم کریں، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے، اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس (شریعت) پر ایمان لایا جو آپ لائے ہیں اور میں اپنی قوم کا قاصد ہوں اور میں ضمام بن ثعلبہ ہوں (قبیلہ! سعد بن بکر کے بھائیوں میں سے) ۔
Narrated Anas bin Malik: While we were sitting with the Prophet in the mosque, a man came riding on a camel. He made his camel kneel down in the mosque, tied its foreleg and then said: "Who amongst you is Muhammad?" At that time the Prophet was sitting amongst us (his companions) leaning on his arm. We replied, "This white man reclining on his arm." The man then addressed him, "O Son of 'Abdul Muttalib."
The Prophet said, "I am here to answer your questions." The man said to the Prophet, "I want to ask you something and will be hard in questioning. So do not get angry." The Prophet said, "Ask whatever you want." The man said, "I ask you by your Lord, and the Lord of those who were before you, has Allah sent you as an Apostle to all the mankind?" The Prophet replied, "By Allah, yes." The man further said, "I ask you by Allah. Has Allah ordered you to offer five prayers in a day and night (24 hours)? He replied, "By Allah, Yes." The man further said, "I ask you by Allah! Has Allah ordered you to observe fasts during this month of the year (i.e. Ramadan)?" He replied, "By Allah, Yes." The man further said, "I ask you by Allah. Has Allah ordered you to take Zakat (obligatory charity) from our rich people and distribute it amongst our poor people?" The Prophet replied, "By Allah, yes." Thereupon that man said, "I have believed in all that with which you have been sent, and I have been sent by my people as a messenger, and I am Dimam bin Tha'laba from the brothers of Bani Sa'd bin Bakr."