مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 355

مسواک کرنے بیان

راوی:

وَعَنْ شُرَےْحٍ بْنِ ھَانِئٍصقَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِاَیِّ شَےْئٍ کَانَ ےَبْدَأُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَادَخَلَ بَےْتَہُ قَالَتْ بِالسِّوَاکِ (صحیح مسلم)

" اور حضرت شریح ابن ہانی راوی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں تشریف لاتے تو پہلے کیا کرتے؟ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے۔" (صحیح مسلم)

تشریح :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے اور یہ آپ و کے مزاج اقدس کی انتہائی نظافت کی دلیل تھی کہ اگر مجلس مبارک میں خاموش بیٹھنے یا لوگوں سے گفتگو کرنے کی وجہ سے منہ کے اندر کچھ تغیر آگیا ہو تو وہ دور ہو جائے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل مبارک کی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت کا مقصد سامنے آئے گا لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ انتہائی پاکیزگی و صفائی کے ساتھ رہا کریں یہاں تک کے آپ میں گفتگو و کلام کرنے اور ملنے جلنے کے لئے مسواک کر لیا کریں تاکہ کوئی آدمی منہ کی بدمزگی یا بو کے تغیر کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کرے۔
مسواک کی فضیلت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے منقول ہے کہ مسواک کرنے کے ستر فائدے ہیں جن میں سب سے ادنیٰ اور کم درجہ فائدہ یہ ہے کہ مسواک کرنے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت کو یاد رکھے گا جس کی بناء پر اس کا خاتمہ یقینا خیر پر ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ افیون کھانے کے ستر نقصان ہیں جن میں سب سے ادنی اور کم تر نقصان یہ ہے کہ افیون کھانے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت بھول جائے گا ، العیاذ با اللہ
حضرت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کے لئے یہ تاکید ہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سب سے پہلے مسواک کرے کیونکہ اس سے منہ میں بہت زیادہ خوشبو پیدا ہو جاتی ہے جس سے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں