وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ المُغَفَّلِ اَنَّہ، سَمِعَ ابْنَہُ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ الْقَصْرَ الْاَبْیَضَ عَنْ یَمِیْنِ الْجَنَّۃِ قَالَ اَیْ بُنَیَّ سَلِ اﷲَ الْجَنَّۃَ وَتَعَوَّذْ بِہٖ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّہُ سَیَکُوْنُ فِی ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ قَوْمٌ یَّعْتَدُوْنَ فِی الطُّھُوْرِ وَالدُّعَآئِ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل وابوداؤد ابن ماجۃ)
" اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ۔ " اے اللہ میں تجھ سے جنت کی دائیں طرف سفید محل مانگتا ہوں" تو انہوں نے کہا " اے میرے بیٹے! تم اللہ سے جنت مانگو اور (دوزخ کی ) آگ سے پناہ چاہو۔" میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " عنقریب اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں غلو کریں گے۔" (مسند احمد بن حنبل ، ابن ماجۃ، سنن ابوداؤد)
تشریح
صاحبزادہ کو عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنبیہ کا مقصد یہ تھے کہ تم جس طرح اور جن قیود کے ساتھ دعا مانگ رہے ہو یہ غلط اور شان عبودیت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ایک طرف اگر تحکم کا پہلو ہے تو دوسری طرف بہشت میں ایک مخصوص صفت کی طلب یا کسی مخصوص جگہ کا تعین ایک لا یعنی اور نامناسب چیز ہے۔ ہاں۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ سے صرف بہشت مانگو اور دوزخ کی آگ سے پناہ چاہو۔ اب آگے اللہ کا کام ہوگا کہ وہ جنت میں اپنے فضل و کرم سے تمہیں مراتب و درجات کی جس بلندی پر چاہے گا پہنچائے گا۔
حد سے تجاوز اور غیر مطلوب زیادتی ہر چیز میں ناپسندیدہ اور غیر مناسب ہو، خواہ وہ چیز شریعت کا مطلوب ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ کیا جا رہا ہے، اور لسان نبوت سے پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ سے الگ ہو کر اور حدود شریعت سے تجاوز کر کے طہارت اور دعاء میں زیادتی کریں گے۔
" طہارت میں زیادتی" یہ ہے کہ دعا اس انداز اور اس طریقہ سے مانگی جائے جس سے بے ادبی کا اظہار ہوتا ہو اور وہ شان عبودیت کے خلاف ہو، یا دعا میں غیر ضروری و نا مناسب قیود لگائی جائیں یا ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے جو انسانی اعتبار سے احاطہ امکان سے خارج یا عادۃ محال ہوں۔"