وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَتْ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمخِرْقَۃٌ یُنَشِّفُ بِھَا اَعْضَاءَ ہُ بَعْدَ الْوُضُوْءِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ لَیْسَ بِالْقَائِمِ وَاَبُوْ مُعَاذِالرَّاوِیُّ ضَعِیْفٌ عِنْدَاَھْلِ الْحَدِیْثِ۔
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے وضو کے بعد اپنے بھیگے ہوئے اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے " (جامع ترمذی ) اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے اور اس کے ایک راوی، ابومعاذ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں"
تشریح
نہ یہ کہ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وضو کے بعد بھیگے ہوئے اعضاء کو کپڑے سے پونچھے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک حمایت اور تابعین نے وضو کے بعد اعضاء کو پونچھ لینے کی اجازت دی ہے اور ان کی یہ اجازت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے مستنبط نہیں ہے بلکہ یہ خود ان لوگوں کی اپنی رائے ہے، چنانچہ سید جمال الدین شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مضمون کو نقل کیا ہے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ یہ دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ جواز ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کی ذاتی رائے ہے غلط ہے، بلکہ اس کے برعکس آپ کا یہ قول خود آپ کے ذہن کی پیداوار ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام مثلاً حضرت عثمان، حضرت انس اور حضرت حسن بن علی رضوان اللہ علیہم کی جلالت شان اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ صادق کے پیش نظر اس کا وہم بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دینی معاملات میں کوئی چیز ان کے اپنے ذہن کی پیدا کردہ ہو سکتی ہے لہٰذا ان کا فعل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ضرور ہے۔
اس کے علاوہ اس کلیہ کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ حدیث پر عمل کرنا خواہ وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے بنسبت اس کے کہ کسی رائے پر عمل کیا جائے، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور قوی کیوں نہ ہو۔