مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 417

غسل کا بیان

راوی:

وَعَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَکَ مَوْضِعَ شَعْرَۃٍ مِنْ جَنَابَۃٍ لَّمْ یَغْسِلْھَا فُعِلَ بِھَا کَذَا وَکَذَا مِنَ النَّارِ قَالَ عَلِیٌّ فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأسِیْ فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِی فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِی ثَلَاثًا رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَاَحْمَدُ وَالدَّارِمِیُّ اِلَّا اَنَّھُمَا لَمْ یُکَرِّرَ ا فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِی۔

" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جس نے غسل جنابت میں ایک بال کے برابر بھی جگہ (خشک) چھوڑ دی کہ اسے نہ دھویا تو اسے اس طرح آگ کا عذاب دیا جائے گا " حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی (کہ منڈا ڈالا) تین مرتبہ یہی کہا۔ " (سنن ابوداؤد، مسند احمد بن حنبل، دارمی) مگر احمد بن حنبل نے یہ الفاظ " اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی " مکرر ذکر نہیں کئے ہیں۔)

تشریح
یہ حدیث مزید وضاحت کے ساتھ اوپر کی حدیث کی تائید کر رہی ہے اور غسل جنابت میں بالوں کے سلسلے میں غفلت برتنے والوں کو متنبہ کر رہی ہے چنانچہ " اس طرح" یہ تعدد سے کنایہ ہے یعنی ایسے آدمی کو جس نے غسل احتیاط سے نہیں کیا اور بالوں کی جڑوں میں پانی اچھی طرح نہیں پہنچایا کئی قسم کے اور بہت زیادہ عذاب دئیے جائیں گے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان مبارک سے یہ تہدید اور وعید سنی تو اس خوف سے کہ اگر بال رہے تو غسل جنابت کے وقت شاید ان کی جڑیں خشک رہ جائیں اپنے بالوں سے بالکل دشمنوں جیسا معاملہ کیا جس طرح ایک آدمی اپنے دشمن کو اپنے لئے خطرے کا سبب اور باعث سمجھ کر موقع ملتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، ایسے ہی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہدید اور وعید کی بنا پر ان بالوں کو اپنی عاقبت کی خرابی کا باعث سمجھتے ہوئے ان کا صفایا کر دیا۔
اس حدیث اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ سر کے بال ہمیشہ مڈاتے رہنا جائز ہے مگر اولیٰ اور سنت بالوں کا رکھنا ہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین اپنے سروں پر بال رکھتے تھے اور صرف حج کے موقع پر منڈواتے تھے۔
جہاں تک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس ارشاد کا تعلق ہے، اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی مراد یہ ہے کہ میں نے اپنے سر کے جو بال منڈاوئے ہیں، ان کی کوئی دوسری غرض نہیں ہے یعنی اس سے زیبائش اور آرائش یا کسی راحت و آرام کا طلب مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصد وہی ہے جو بیان کیا گیا، اس طرح گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک ایسے فعل کے ترک پر عذر بیان کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مداومت کے ساتھ ثابت ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں