غسل کا بیان
راوی:
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ لَقِےَنِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَنَا جُنُبٌ فَاَخَذَ بِےَدِیْ فَمَشَےْتُ مَعَہُ حَتّٰی قَعَدَ فَانْسَلَلْتُ فَاَتَےْتُ الرَّحْلَ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ وَھُوَقَاعِدٌ فَقَالَ اَےْنَ کُنْتَ ےَا اَبَاھُرَےْرَۃَ ص فَقُلْتُ لَہُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا ےَنْجُسُ ھٰذَا لَفْظُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ مَعْنَاہُ وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِہٖ فَقُلْتُ لَہُ لَقَدْ لَقِےْتَنِیْ وَاَنَا جُنُبٌ فَکَرِھْتُ اَنْ اُجَالِسَکَ حَتّٰی اَغْتَسِلَ وَکَذَا الْبُخَارِیُّ فِیْ رَوَاےَۃٍ اُخْرٰی۔
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی اور میں جنبی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ہمراہ ہو لیا۔ جب آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے نکل کر اپنے مکان آیا اور نہا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے (مجھے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم کہاں تھے؟" میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اصل واقعہ) ذکر کیا (کہ میں ناپاک تھا اس لئے چلا گیا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سبحان اللہ ! مومن ناپاک نہیں ہوتا۔" روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں مسلم نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ (انہوں نے کہا) چونکہ میں حالت ناپاکی میں تھا اس لئے یہ مناسب معلوم نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھوں جب تک کہ نہانہ لوں۔ " اسی طرح صحیح البخاری کی ایک دوسری روایت میں بھی یہ الفاظ منقول ہیں۔"
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جنابت نجاست حکمی ہے کہ شریعت نے اس کا حکم کیا ہے اور اس پر غسل کو واجب قرار دیا ہے، لہٰذا حالت جنابت میں آدمی حقیقۃً نجس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنبی کا نہ تو جھوٹا ناپاک ہوتا ہے اور نہ اس کا پسینہ ہی ناپاک ہے، اس لئے جنبی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا، مصافحہ کرنا ، کلام کرنا یا اسی طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔