مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 442

غسل کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ رَافِعِ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَافَ ذَاتَ یَوْمٍ عَلٰی نِسَآئِہٖ یَغْتَسِلُ عِنْدَہ ھٰذِہِ قَالَ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَلَّا تَجْعَلُہ، غُسْلًا وَّاحِدًاٰخِرًا قَالَ ھٰذَا اَزْکی وَاَطْیَبُ وَاَظْھَرُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل ابوداؤد)

" اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز اپنی تمام بیویوں کے پاس آئے (یعنی سب سے جماع کیا) اور ہر ایک بیوی سے (جماع سے فارغ ہو کر علیحدہ علیحدہ) غسل فرمایا۔ ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں ایک ہی مرتبہ کیوں نہ غسل کر لیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یہ (یعنی ہر جماع کے بعد غسل کرنا، خوب پاک کرتا ہے، (نفس کے لئے) بہت خوش آئند ہے اور (جسم کو) خوب صاف کرتا ہے۔" (سنن ابوداؤد)

تشریح
اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٥ سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شب میں تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرما کر آخر میں ایک ہی مرتبہ غسل فرمایا اور یہاں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ایک دن تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرمائی اور غسل کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ہر بیوی کے ساتھ جماع سے فراغت کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا تو ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلا عمل جو اوپر بیان ہوا وہ امت کی آسانی کے لئے تھا یعنی اس بات کا اظہار مقصود تھا تمام بیویوں کے ساتھ ہم بستری سے فراغت کے بعد آخر میں ایک مرتبہ غسل کر لینا کافی ہے لیکن افضل اور بہتر چونکہ یہی ہے کہ ہر جماع کے بعد غسل کیا جائے اس لئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جماع کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب میں ہر مرتبہ غسل کرنے کی جو وجہ بیان فرمائی ہے اس میں تین لفظ استعمال فرمائے ہیں (١) از کی (٢) اطیب (٣) اطہر۔ ان تینوں الفاظ کے فرق کو ظاہر کرتے ہوئے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ " تطہیر" کا استعمال ظاہری مناسبت سے ہے اور تزکیہ و تطیب کا استعمال باطنی مناسبت سے ہے یعنی تطہیر اخلاق بد کے ازالہ کے لئے ہے اور تزکیہ و تطیب اچھی خصلتوں کے حصول کے لئے ہے گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس طرح غسل کرنے سے برے اخلاق مثلاً غصہ وغیرہ دور ہوتے ہیں اور اچھے اخلاق یعنی حلم و تقوی وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں