پانی کے احکام کا بیان
راوی:
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ لَا تَغْتَسِلُوْا بِالْمَآءِ الْمُشَمَّسِ فَاِنَّہُ یُوْرِثُ الْبَرَصَ۔ (رواہ الدارقطنی)
" اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ یہ برص( یعنی سفیدی کی بیماری ) کا سبب ہوتا ہے۔" (دارقطنی)
تشریح
" دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی " کا مطلب بعض علماء نے یہ اخذ کیا ہے کہ اس پانی سے غسل نہ کرنا چاہئے جو قصدا دھوپ میں رکھ کر گرم کیا گیا ہوا لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے یعنی خواہ پانی کو دھوپ میں قصدا رکھ کر گرم کیا گیا ہو یا پانی کسی جگہ پہلے سے رکھا ہوا ہو اور دھوپ کے آجانے سے گرم ہو گیا ہو۔
حضرت میرک شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث (یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول) ضعیف ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث اس سلسلے میں منقول نہیں ہے۔
مگر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کو دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے جس کے راوی ثقہ اور معتمد ہیں لہٰذا اس کی صحت پر کوئی کلام صحیح نہیں ہوگا۔
جہاں تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کی مراد کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عمر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے پانی میں غسل مستقلاً نہ کیا جائے اور نہ اس پانی سے غسل کرنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ برص جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے۔
ویسے مسئلہ کی بات یہ ہے کہ دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ حضرت امام اعظم، امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں حضرات کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے البتہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک میں کچھ اختلاف ہے لیکن ان کا صحیح قول یہ ہے کہ اس پانی سے غسل کرنا مکروہ ہے البتہ ان کے علماء متاخرین نے بھی تینوں ائمہ کی ہمنوائی کرتے ہوئے یہی مسلک اختیار کیا ہے کہ اس میں کراہت نہیں ہے۔