مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 541

نماز کا بیان

راوی:

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ عَالَجْتُ امْرَاَۃً فِیْ اَقْصَی الْمَدِےْنَۃِ وَاِنِّیْ اَصَبْتُ مِنْھَا مَا دُوْنَ اَنْ اَمَسَّھَا فَاَنَا ھٰذَا فَاقْضِ فِیَّ مَا شِئْتَ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ لَقَدْ سَتَرَکَ اللّٰہُ لَوْسَتَرْتَ عَلٰی نَفْسِکَ قَالَ وَلَمْ ےَرُدَّ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلمعَلَیْہٖ شَےْئًا وَّقَامَ الرَّجُلُ فَانْطَلَقَ فَاَتْبَعَہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلًا فَدَعَاہُ وَتلَاَ عَلَےْہِ ھٰذِہِ الْاٰےَۃَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّےْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ ےُذْھِبْنَ السَّےِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاکِرِےْنَ (پ ١٢ رکوع ١٠)فَقَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْقَوْمِ ےَا نَبِیَّ اللّٰہِ ھٰذَالَہُ خَآصَّۃً فَقَالَ بَلْ لِّلنَّاسِ کَآفَّۃً۔ (صحیح مسلم)

" حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مدینہ کے کنارے میں نے ایک عورت کو گلے لگا کر سوائے صحبت کے اور سب کچھ کر لیا ہے، (یعنی صحبت تو نہیں کی لیکن بوس و کنار ہو گیا ہے اس لئے) میں حاضر ہو گیا ہوں جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں میرے بارے میں حکم فرمائیں ۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے جو سزا بھی تجویز فرمائیں گے مجھے منظور ہو گی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (جو اس وقت مجلس نبوی میں حاضر تھے یہ سن کر) فرمایا اللہ نے تو تمہارے عیب کی پردہ پوشی فرمائی تھی اگر تم بھی اپنے عیب کو چھپا لیتے تو (اچھا تھا) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ کے حکم کے انتظار میں) اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ چنانچہ وہ آدمی کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلانے کے لئے ایک آدمی بھیجا جو اسے بلا لایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ) 11۔ہود : 114) دن کے اول و آخر اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور یہ نصیحت، نصیحت ماننے والوں کے لئے ہے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! کیا یہ حکم خاص طور پر اسی کے لئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں : سب لوگوں کے لئے یہی حکم ہے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
اسی باب کی پہلی فصل کی تیسری حدیث میں بھی اس آیت کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ دن کے اول سے فجر اور آخر سے ظہر و عصر مراد ہیں اسی طرح،" رات کی چند ساعتوں" سے مراد مغرب و عشاء ہیں۔
حضرت ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ پہلی فصل میں اسی طرح کی جو حدیث نمبر تین گزری ہے وہ تو ایک آدمی (ابوالیسر) کا واقعہ ہے اور یہ حدیث جو یہاں ذکر کی گئی ہے یہ کسی دوسرے صاحب کا واقعہ ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ یہ آیت بھی اس آدمی کے لئے دوسری مرتبہ نازل ہوئی ہو۔ مگر محققین نے لکھا ہے کہ تعدد واقعہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیت بھی مکرر نازل ہوئی ہو اور نہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی آیت جو پہلے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی بطور سند کے اس آدمی کے سامنے بھی تلاوت فرما دی۔

یہ حدیث شیئر کریں