جلدی نماز پڑھنے کا بیان
راوی:
عَنْ عَلِیِّ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ یَا عَلِیُّ ثَلَاثُ لَّا تُؤَ خِّرْھَا اَلصَّلٰوۃُ اِذَاَتَتْ وَالْجَنَازَۃُ اِذَا حَضَرَتْ وَالْاَ یِّمُ اِذَا وَجَدْتَ لَھَا کُفُوًا۔ (رواہ الترمذی)
" حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے۔ " (جامع ترمذی )
تشریح
لسان نبوت سے حضرت علی المرتضیٰ کو تین کاموں میں تاخیر نہ کرنے کی نصیحت فرمائی جا رہی ہے ۔ پہلے تو نماز کے بارے میں فرمایا کہ جب نماز کا وقت مختار ہو جائے تو اس میں تاخیر نہ کرنی چاہئے بلکہ سب سے پہلے نماز پڑھو اس کے بعد کوئی دوسرا کام کرو۔
دوسرے نمبر پر جنازے کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس وقت جنازہ تیار ہو جائے تو اس کی نماز اور تدفین میں قطعاً تاخیر نہ کرنی چاہئے۔ علامہ اشرف رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول علامہ طیبی شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نقل کرتے ہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنازے کی نماز اوقات مکروہہ ( یعنی آفتاب نکلنے ڈوبنے کے وقت اور نصف الہنار کے وقت) میں پڑھنی مکروہ نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ صورت ہو کہ جنازہ ان اوقات سے پہلے آجائے تو پھر ان اوقات میں نماز پڑھنی مکروہ ہو گی۔ یہی سجدہ تلاوت کا حکم ہے بہر حال ان تینوں اوقات مکروہہ کے علاوہ تمام اوقات میں حتی کہ فجر کی نماز سے پہلے و بعد میں اور عصر کی نماز کے بعد بھی یہ دونوں چیزیں یعنی نماز جنازہ اور سجدہ تلاوت مطلقاً مکروہ نہیں ہیں۔
تیسری چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ بے خاوند عورت کا کفو یعنی ہم قوم مرد جب بھی مل جائے اس کے نکاح میں تاخیر نہ کرنی چاہئے۔
ایم بے خاوند عورت کو کہتے ہیں خواہ وہ کنواری ہو یا مطلقہ، بیوہ ہو مگر علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " ایم" اس کو فرماتے ہیں جس کا زوج (یعنی جوڑہ) نہ ہو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور عورت خواہ ثیبہ ہو یا باکرہ!۔
" کفو" کا مطلب یہ ہے کہ مرد ان جملہ اوصاف میں عورت کے ہم پلہ و برابر ہو۔ (١) نسب ۔ (٢) اسلام (٣) حریت۔ (٤) دیانت ۔ (٥) مال۔ (٦) پیشہ۔
اس موقعہ پر حدیث کی مناسبت سے ایک تکلیف دہ صورت حال کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلا دینا ضروری ہے۔ آج کل یہ عام رواج سا ہوتا جا رہا ہے کہ لڑکیوں کی شادی میں بہت تاخیر کی جاتی ہے اکثر تاخیر تو تہذیب جدید کی اتباع اور رسم و رواج کی پابندی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و فرمان کے سراسر خلاف ہے لڑکیوں کی فطرت اور ان کے جذبات کا گلا گھونٹ کر ان پر ظلم کے مترادف بھی ہے چنانچہ اس کے نتائج آج کل جس انداز سے سامنے آرہے ہیں اسے ہر آدمی جانتا ہے کہ زنا کی لعنت عام ہوگئی ہے، بے حیائی و بے غیرتی کا دور دورہ ہے اور اخلاق و کردار انتہائی پستیوں میں گرتے جا رہے ہیں۔
پھر نہ صرف یہ کہ کنواری لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے بلکہ اگر کوئی عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی وجہ سے بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کے دوبارہ نکاح کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اس طرح اس بے چاری کے تمام جذبات و خواہشات کو فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی پوری زندگی کو حرمان و یاس، رنج و الم اور حسرت و بے کیفی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔
یہ تو تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ تمام اہل سنت و الجماعت کا متفقہ طور پر یہ عقیدہ ہے کہ جو آدمی کسی معمولی سنت کا بھی انکار کرے یا اس کی تحقیر کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور یہ سبھی لوگ جانتے ہی کہ عورت کا نکاح کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم و مشہور سنت ہے جس کی تاکید بے شمار احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن ۔ افسوس ہے کہ مسلمان جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت کا اقرار کرتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے کا کوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ کوئی آدمی تو اپنی مجبوریوں کی آڑ لے کر لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کرتا ہے، کوئی تہذیب جدید اور فیشن کا دلدادہ ہو کر اس سعادت سے محروم رہتا ہے اور کوئی آدمی طعن و تشنیع کے خوف سے بیوہ کی شادی کرنے سے معذوری ظاہر کرتا ہے گویا وہ لوگوں کے طعن و تشنیع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ترجیح دیتا ہے حالانکہ دانش مندی کا تقاضتا تو یہ ہے گویا وہ لوگوں کے اس طعن و تشنیع کو اپنے لئے باعث سعادت اور قابل فخر جانے کہ انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے نیک بندوں کے اچھے کاموں پر ہمیشہ ہی لوگوں نے طعن و تشنیع کی ہے مگر ان لوگوں نے اللہ کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیک کاموں میں کبھی کوتاہی یا قصور نہیں کیا۔
اس موقعہ پر ایک بزرگ کی دلچسپ حکایت سن لیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ نے اپنی لڑکی کا نکاح اپنے ایک مرید سے جو اس لڑکی کے مناسب و لائق تھا کر دیا اور اس کی خبر کو کسی نہ کسی طرح اپنی بیوی سے بھی پوشیدہ رکھا۔ بعد میں جب ان کی بیوی کو یہ معلوم ہوا تو جزبر ہوئی اور ان سے کہنے لگی کہ آپ نے اس کا بھی خیال کیا کہ آپ کے اس طرز عمل سے آپ کی ناک کٹ گئی، اور پھر جیسا کہ ان ناقص العقل والدین عورتوں کی عادت ہے اس بے چارے بزرگ کو لاکھ صلواتیں سنائیں۔ وہ بزرگ یہ سمجھ کر کہ عورتوں کے منہ لگنا خواہ مخواہ اپنی عقل خراب کرنا ہے۔ خاموش ہوگئے پھر باہر آکر انہوں نے مریدوں سے پوچھا کہ کیوں بھائیو میرے منہ پر ناک بھی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے تعجب سے کہا کہ ہاں کیوں نہیں ہے! وہ کہنے لگے کہ میری بیوی تو کہتی ہے کہ میری ناک کٹ گئی
١ ۔ وہ عورت جس کا نکاح ہوا، مگر یا تو خاوند مر گیا یا خاوند نے طلاق دے دی ہو۔
اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ آدمی کو چاہئے کہ نیک کام کرنے میں کسی طعن و تشنیع کا خیال نہ کرے کیونکہ حقیقت میں جو بات بری نہیں ہوتی وہ کسی کے کہہ دینے سے بری نہیں ہو جاتی اور نہ اس کام کو کرنے والے کی ذات و آدمییت کو کوئی بٹہ لگتا ہے۔
حضرت مولانا الشاہ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آیت (وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ) 24۔ النور : 32) کے ضمن میں اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی ! تین کاموں میں دیر نہ کرو۔ (١) فرض نماز کی ادائیگی میں جب کہ اس کا وقت ہو جائے۔ (٢) جنازے میں جب کہ موجود ہو۔ (٣) بیوہ عورت (کے نکاح میں) جب کہ اس کی ذات (و مرتبہ) کا مرد مل جائے ۔ جو شخص (بیوہ کو ) دوسرا خاوند کرنے میں عیب لگائے (تو سمجھو کہ ) اس کا ایمان سلامت نہیں ہے اور جو لونڈی و غلام نیک ہوں (یعنی شادی کر دینے کے بعد ان کے مفرور ہو جانے کا خوف نہ ہو اور تمہیں اعتماد ہو کہ یہ نیک بخت ہیں شادی کے بعد ہمارا کام نہیں چھوڑیں گے) تو ان کا بھی نکاح کر دو۔