مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 572

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْوَقْتُ الْاَوَّلُ مِنَ الصَّلَاۃِ رِضْوَانُ اﷲِ وَالْوَقْتُ الْاٰخِرُ عَفْوُاﷲِ ۔ (رواہ الترمذی)

" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کو اول وقت ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے اور آخر وقت میں ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی معافی کا سبب ہے۔" (جامع ترمذی )

تشریح
اول وقت سے مراد اول وقت مختار ہے اور اس کی قید لگانے کی ضرورت یوں ہوئی کہ حنفیہ کے نزدیک بعض نمازوں میں تاخیر کی جاتی ہے جیسے فجر کی نماز میں اور گرمی میں ظہر کو مؤخر کر کے پڑھنا ہی مستحب ہے لہٰذا یہ نمازیں مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کا اول وقت مختار نہیں ہے بلکہ ان میں تاخیر ہی مختار ہے۔
" آخر وقت" سے مراد وقت مکروہ ہے مثلاً عصر کی نماز میں سورج کا متغیر ہو جانا یا عشاء کی نماز میں وقت کا آدھی رات سے زیادہ گزر جانا ۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آخر وقت میں نماز کی فرضیت تو بہر حال ادا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس وقت نماز پڑھنے والا ترک نماز کے گناہ سے تو بچ ہی جاتا ہے کہ اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں