مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 577

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ مُعَاذِبْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَعْتِمُوْا بِھٰذِہِ الصَّلَاۃِ فَاِنَّکُمْ قَدْ فُضِّلْتُمْ بِھَا عَلٰی سَائِرِ الْاُ مَمِ وَلَمْ تُصلِّھَا اُمَّۃٌ قَبْلَکُمْ۔ (رواہ ابوداؤد)

" حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس نماز (یعنی عشاء کی نماز) کو دیر کر کے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں دوسری امتوں پر اس نماز کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔" (ابوداؤد)

تشریح
اس سے پہلے باب المواقیت کی حدیث نمبر تین میں گزر چکا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچوں وقت کی نماز پڑھائی اور کہا کہ (ھذا وقت الانبیاء من قبلک ) اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی عشاء کی نماز پڑھتے تھے مگر جو حدیث یہاں ذکر کی گئی ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشاء کی نماز صرف اسی امت پر فرض ہے پہلی امتوں پر فرض نہیں تھی۔ لہٰذا محدثین نے ان دونوں حدیثوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ پہلی امتوں میں عشاء کی نماز صرف پیغمبر و رسول ہی پڑھتے تھے۔ کیونکہ یہ نماز ان کی امتوں پر واجب نہیں تھی بلکہ انہیں پر واجب تھی جیسا کہ بعض علماء کے قول کے مطابق تہجد کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر واجب نہیں ہے اس لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ارشاد ھذا وقت الانبیاء سے پہلی امتوں پر عشاء کا وجوب ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ یہ نماز انبیاء علیہ السلام ہی پڑھتے تھے اور اس کو حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام بھی عشاء کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نماز پہلی امتوں کے لوگ نہیں پڑھتے تھے اور یہ نماز اسی امت کے لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسطرح ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔
آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ ھذا وقت الا نبیاء من قبلک میں لفظ ھذا سے فجر کے وقت اسفار کی طرف اشارہ ہے کہ بخلاف دوسرے اوقات کے اس میں تمام انبیاء شریک ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں