جلدی نماز پڑھنے کا بیان
راوی:
عَنْ عُبَےْدِاللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخَےَّارِ اَنَّہُ دَخَلَ عَلٰی عُثْمَانَ وَھُوَ مَحْصُوْرٌ فَقَالَ اِنَّکَ اِمَامُ عَآمَّۃٍ وَّنَزَلَ بِکَ مَا تَرٰی وَےُصَلِّیْ لَنَااِمَامُ فِتْنَۃٍ وَنَتَحَرَّجُ فَقَالَ الصَّلٰوۃُ اَحْسَنُ مَا ےَعْمَلُ النَّاسُ فَاِذَا اَحْسَنَ النَّاسُ فَاَحْسِنْ مَعَھُمْ وَاِذَا اَسَآءُ وا فَاجْتَنِبْ اِسَآءَ تَھُمْ۔ (صحیح البخاری)
" اور حضرت عبیداللہ ابن عدی ابن خیار کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ وہ (اپنی شہادت سے پہلے بغاوت کے ایام میں اپنے مکان کے اندر) محصور تھے چنانچہ (عبیدا اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) میں نے عرض کیا کہ آپ ہم سب کے امام (اور امیر) ہیں اور آپ پر جو کچھ مصائب و پریشانیاں) نازل ہوئی ہیں وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور (ہمارا حال یہ ہے کہ) ہمیں فتنے و فساد کا ایک امام نماز پڑھاتا ہے (جس کے پیچھے نماز پڑھنا) گناہ سمجھتے ہیں، (یہ سن کر) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نماز پڑھنا لوگوں کے تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے۔ لہٰذا جب لوگ نیکی و بھلائی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیکی و بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تو تم ان کی برائیوں سے بچو۔" (صحیح البخاری )
تشریح
" فتنہ و فساد کے امام" سے مراد باغیوں کا سردار ہے جس کا نام کنانۃ ابن بشیر تھا۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی نیکیوں میں تو شریک رہو یعنی اگر وہ نیک کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ مل کر وہی نیک کام کرو البتہ ان کی بدی میں شریک نہ رہو۔ اور نماز کا پڑھنا نیک ہی عمل ہے اس لئے باغیوں کے سردار کے پیچھے تمام پڑھ سکتے ہو اسے گناہ کی بات نہ سمجھو۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے ان کے عدل و انصاف اور ان کے حلم و بردباری کے عظیم وصف پر روشنی پڑتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے سخت موقعہ پر جب کہ باغیوں نے اپنے ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے انہیں مکان میں محصور کر رکھا تھا اور ان کے اوپر تکالیف و پریشانیوں کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو انہوں نے اس وقت بھی ان کی نیکی اور بھلائی کو از راہ بغض و انتقام برائی سے تعبیر نہیں کیا بلکہ اسے اچھا ہی کہا۔ یہ ارشاد اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ہر نیک و بد آدمی کے پیچھے نماز جائز ہو جاتی ہے جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے۔