مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 596

نماز کے فضائل کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ّص قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَغْلِبَنَّکُمُ الْاَعْرَابُ عَلَی اسْمِ صَلٰوتِکُمُ الْمَغْرِبِ قَالَ وَتَقَوْلُ الْاَعْرَابُ ھِیَ الْعِشَآءُ وَقَالَ لَا ےَغْلِبَنَّکُمُ الْاَعْرَابُ عَلَی اسْمِ صَلٰوتِکُمُ الْعِشَآئئِ فَاِنَّھَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ الْعِشَآءُ فَاِنَّھَا تُعْتِمُ بِحِلَابِ الْاِبِلِ ۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیہاتی لوگ نماز مغرب کے نام لینے میں تم پر غالب نہ آجائیں راوی فرماتے ہیں کہ دیہاتی لوگ( مغرب کو) عشاء کہتے تھے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز عشاء کے نام لینے میں بھی دیہاتی لوگ تم پر غالب نہ آجائیں۔ اس نماز کا نام کتاب اللہ میں عشاء ہے (چنانچہ ارشاد ربانی ہے آیت ( وَمِنْ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَا ءِ ) 24۔ النور : 58) اور وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے اس نماز میں تاخیر کر دیتے تھے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
" دیہاتی لوگوں" سے مراد ایام جاہلیت کے دیہاتی لوگ ہیں جو مغرب کو تو عشاء کہتے تھے اور عشاء کو عتمہ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منع فرما دیا کہ یہ نام نہ لئے جائیں کیونکہ اس میں ان کا غالب ہونا لازم آتا ہے اس لئے کہ جب ان لوگوں کا رکھا نام استعمال کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے ان کی زبان کو اپنایا جس کی بناء پر وہ تم پر غالب رہے لہٰذا تم وہی نام استعمال کر و جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں یعنی مغرب اور عشاء۔
لہٰذا۔ بظاہر تو اس نہی کا تعلق دیہاتی لوگوں سے ہے کہ وہ غالب نہ ہوں لیکن حقیقت میں اس نہی کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے کہ وہ ان نمازوں کے ناموں کے سلسلے میں دیہاتی لوگوں کی موافقت نہ کریں تاکہ مسلمانوں پر ان کا غالب ہونا لازم نہ آئے۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان اور اپنا کلام اصطلاح شریعت کے مطابق درست کریں اور جو باتیں کفار و فجار کی زبان زد ہوں ان سے پرہیز کریں۔
نہی اور علت نہی بیان فرمانے کے بعد فَاِنَّھَا بِحَلَابِ الْاِبِلِ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو عتمہ کہنے کی وجہ کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے۔ " تعتم" صحیح روایت میں صیغہ معروف کے ساتھ ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ عتمہ تاریکی کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کو تاریکی میں پڑھتے تھے بایں طور پر کہ وہ شفق غائب ہونے کے بعد دودھ شروع کرتے تھے پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے۔ ایک دوسری روایت میں یہ لفظ صیغہ مجہول کے ساتھ مذکور ہے جس کے معنی یہ ہوں گے ۔ اونٹنیوں کا دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کی نماز تاریکی میں پڑھی جاتی تھی۔
بہر حال ایام جاہلیت میں عرب کے لوگ عتمہ تاریکی کو کہتے تھے۔ جب اسلام کی مقدس روشنی نے عرب کی سر زمین کو کفر و شرک کے اندھیروں سے صاف کیا اور نمازیں مشروع ہوئیں تو عشاء کی نماز کو دیہاتی لوگ صلوۃ العتمہ کہنے لگے چنانچہ اس نام سے مسلمانوں کو روکا گیا اور اہل جاہلیت سے مشابہت کی بناء پر اس نام کو مکروہ قرار دے دیا گیا۔
یہ پہلے بھی کئی جگہ بتایا جا چکا ہے کہ جن روایتوں میں بجائے عشاء کی عتمہ کا لفظ آیا ہے وہ روایتیں اس نہی سے قبل کی ہوں گی۔

یہ حدیث شیئر کریں