نماز کے فضائل کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَلِیٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ےَوْمَ الْخَنْدَقِ حَبَسُوْنَا عَنْ صَلٰوۃِ الْوُسْطٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ مَلَأ اللّٰہُ بُےُوْتَھُمْ وَقُبُوْرَھُمْ نَارًا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق کے روز فرماتے تھے کہ (کافروں نے) ہمیں درمیانی نماز یعنی عصر کے پڑھنے سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں میں آگ بھرے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
غزوہ خندق کو غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں جو ٤ھ یا ٥ھ میں ہوا تھا۔ اس جنگ کو غزوہ خندق اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسی غزوہ کے موقعہ پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے دشمنوں سے بچاؤ کی خاطر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی۔ خندق کھود نے میں تمام مسلمانوں کے ہمراہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی وامی) بھی بنفس نفیس شریک تھے۔ جس طرح دیگر مخلص مومنین دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر اللہ کے دین کی حفاظت اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی کامیابی کے لئے اس محنت و مشقت میں مصروف رہتے تھے اسی طرح آقائے نامدار سرور کائنات فخر دو عالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بڑی بڑی تکالیف برداشت فرما کر مصائب و رنج اٹھا کر بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ کر سردی کی شدید پریشانی اور زمین کو کھودنے پتھر اکھاڑنے کی سخت محنت جھیل کر اپنے جانثار رفقاء کے ہمراہ خندق کھودتے تھے۔
اسی جنگ میں بسبب تردد اور تیر اندازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں قضا گئی تھیں انہیں میں عصر کی نماز بھی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے یہ بد دعا فرمائی جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان کفار و مشرکین نے ہماری نمازیں قضا کرا کر ہمیں سخت روحانی تکلیف و ازیت میں مبتلا کیا ہے، اللہ کرے وہ بھی دنیا و آخرت کے شدید عذاب میں مبتلا کئے جائیں۔
ایک معمولی سا خلجان یہاں واقع ہو سکتا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو جبکہ کفار کی جانب سے بے انتہا تکلیف پہنچائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں بددعا نہیں کی اور یہاں بدعا فرمائی اس کی وجہ کیا ہے؟۔
اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا معاملہ تھا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت کا تقاضا تھا کہ اپنے نفس کے معاملہ میں کسی کے لئے بددعا نہ کریں مگر یہاں نماز کا سوال تھا جس کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نہ تھا بلکہ حقوق اللہ سے تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دع فرمائی۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ " صلوٰۃ وسطی" عصر کی نماز ہے چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم میں سے اکثر جلیل القدر حضرات، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم وغیرہ کا قول یہی ہے لہٰذا قرآن شریف کی آیت کریمہ آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ : 238) (یعنی محافظت کرو تم سب نمازوں کی اور درمیانی نماز کی) میں وسطی سے عصر کی نماز ہی مراد لی جائے گی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کے تعین میں اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا اختلاف رہا ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت تک ان حضرات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث (جو آئندہ فصل میں آرہی ہے) نہیں پہنچی ہوگی جس سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ " صلوٰۃ وسطیٰ" سے عصر کی نماز مراد ہے ۔ اس لئے وہ حضرات اپنے اجتہاد اور رائے کی بناء پر اس کے تعین میں اختلاف کرتے ہوں گے چنانچہ اس حدیث کے صحت کے بعد یہ متعین ہوگیا کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ وا اللہ اعلم۔