مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 616

اذان کا بیان

راوی:

وَعَنْ مَالِکٍ بَلَغَہُ اَنَّ الْمُؤَذِّنَ جَآءَ عُمَرَ یُؤَذِنُہ، لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ فَوَجَدَہ، نَائِمًا فَقَالَ الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ فَاَمَرَہُ عُمَرُ اَنْ یَجْعَلَھَا فِی نِدَاءِ الصُّبْحِ۔ (رواہ موطائ)

" اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ مؤذن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آکر صبح کی نماز کے لئے انہیں خبردار کر دیتا تھا چنانچہ (ایک دن) مؤذن نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوتا ہوا پایا تو کہا (الصلوۃ خیر من النوم۔ نماز نیند سے بہتر ہے ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مؤذن کو حکم دیا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے۔" (موطا)

تشریح
بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کے کلمہ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اضافہ کیا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ فجر کی اذان میں یہ کلمہ کہنا تو شروع ہی سے مسنون تھا ۔ اب اس حدیث کی توجیہات کی گئی ہیں لیکن زیادہ مناسب اور بہترین توجیہ یہ ہے کہ جب مؤذن نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوتا ہوا دیکھ کر یہ کلمہ کہا تو انہیں ناگوار ہوا اور فرمایا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے یعنی یہ کلمہ فجر کی اذان ہی میں کہنا سنت ہے اسی موقع پر تمہیں یہ کلمہ کہنا چاہئے اذان کے سوا سوتے ہوئے کو جگانے کے لئے یہ کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں