مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 623

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنَ عُمَرَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ فَقَالَ اَحَدُکُمْ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اللّٰہُ اَکْبَرُ ثُمَّ قَالَ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ قَالَ اَشْھَدُ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ قَالَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ثُمَّ قَالَ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ثُمَّ قَالَ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ قاَلَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ثُمَّ قَالَ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ قَالَ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اللّٰہُ اَکْبَرُ ثُمَّ قَالَ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مِنْ قَلْبِہٖ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اللہ اکبر اللہ اکبر کہے، پھر جب مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اشھد ان لا الہ الاا اللہ کہے، پھر جب اشھد ان محمد الرسول اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اشھد ان محمد الرسول اللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے تو تم میں سے ہر آدمی لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو تم میں سے ہر آدمی لاھول ولاقوۃ الا باللہ کہے، پھر جب مؤذن اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہے تو تم میں سے ہر آدمی کہے اللہ اکبر، اللہ اکبر پھر جب مؤذن کہے لا الہ لا اللہ تو تم بھی کہو لا الہ لا اللہ جس نے (اذان کے جواب میں یہ کلمات) صدق دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔" (صحیح مسلم)

تشریح
یہاں اللہ اکبر اختصار کی وجہ سے دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ سمجھانے کے لئے دو ہی مرتبہ کہنا کافی تھا اس لئے شہادتین یعنی اشھدان لا الہ الاا اللہ اور اشھد ان محمد الرسول اللہ کو بھی صرف ایک ایک مرتبہ ہی ذکر کیا گیا ہے۔
لا حول ولاقوۃ الا باللہ کے معنی یہ ہیں، برائی سے بچنے اور نیک کام کرنے کی قوت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، جب مؤذن حی علی الصلوۃ ، حی علی الفلاح کہتا ہے تو وہ لوگوں کو نماز کے لئے بلاتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواب میں یہ کلمہ کہنے والا گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک امر عظیم اور زبردست فرض کی ادائیگی کا معاملہ ہے میں ایک عاجز و کمزور بندہ ہوں۔ میری قوت و طاقت کی کیا مجال کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کی متحمل ہو سکوں ۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہی ہوتی ہے جو ہم اس امر عظیم کو پورا کرتے ہیں اور چونکہ نماز کے لئے آنے کی طاقت اور قوت اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوتی لہٰذا اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرماتا ہے تو ہم نماز کے لئے آتے ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مؤذن جب اذان کہتا ہے تو اس کے کہے ہوئے کلمات کو اسی طرح دہرانا یعنی اس کا جواب دینا مستحب ہے البتہ حیعلتین یعنی حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول و لاقوۃ الا باللہ پڑھنا چاہئے۔ بعض مقامات پر کچھ حضرات حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں ماشاء اللہ کان ولم یشاء لم یکن فرماتے ہیں یہ غلط اور مسنون طریقے کے خلاف ہے۔
اذان کا جواب ہر سننے والے کو دینا چاہئے خواہ باوضو ہو یا بے وضو اور خواہ جنبی ہو یا حائض، بشر طیکہ جواب دینے میں کوئی چیز مانع نہ ہو مثلاً کوئی بیت الخلا میں ہو یا جماع کرتا ہوا، یا نماز پڑھ رہا ہو یا ایسے ہی کوئی دوسرا مانع ہو تو وہ اس وقت جواب نہ دے لیکن اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ان امور سے فراغت کے بعد اذان کے کلمات جواب میں کہے۔
" صدق دل سے کہے" کا تعلق یا تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ سے ہے کہ یہ کلمہ صدق دل سے کہا جائے یا پھر اس کا تعلق پوری اذان کے کلمات سے ہے کہ جواب میں تمام کلمات پورے خلوص اور صدق دل کے ساتھ کہے جائیں اور ظاہری طور پر بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق پوری اذان سے ہے۔
جنت میں تو تمام مسلمان ہی داخل ہوں گے چاہے وہ کسی عذاب کے بغیر داخل ہوں یا عذاب کے بعد داخل ہوں۔ لہٰذا یہاں جنت میں داخل ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایسا آدمی جو اذان کا جواب صدق دل سے دیتا ہے یعنی زبان سے تو ان کلمات کو ادا کرتا ہے اور دل میں ان کلمات کی صداقت کا پورا اعتقاد رکھتا ہے تو وہ نجات پائے ہوئے لوگوں کے ہمراہ جنت میں داخل ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں