اذان کا بعض احکام کا بیان
راوی:
وَعَنْ مَّالِکِ بْنِ الْحُوَےْرِثِ قَالَ اَتَےْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِّی فَقَالَ اِذَا سَافَرْتُمَا فَاَذِّنَا وَاَقِےْمَا وَلْےَؤُمَّکُمَا اَکْبَرُکُمَا۔ (صحیح البخاری)
" اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے صاحبزادے (ہم دونوں) سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سفر میں جاؤ تو (نماز کے لئے) اذان و تکبیر کہا کرو اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔" (صحیح البخاری )
تشریح
غالباً یہ دونوں حضرات علم و ورع میں ہم پلہ ہوں گے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بننے کا حقدار اسے قرار دیا جو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بڑا ہو، یا پھر " اکبر" (یعنی بڑے) سے مراد افضل ہے کہ دونوں میں سے جوا فضل ہو وہ امامت کرے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فضیلت کی شرط اذان میں نہیں ہے، تاہم چاہیے یہی کہ اذان وہ آدمی دے جو اقامت نماز کا علم رکھتا ہو، نیک اور دیندار ہو، بلند آواز اور خوش گلو ہو اور اذان کے کلمات صحیح صحیح ادا کر سکتاہو۔