اذان کا بعض احکام کا بیان
راوی:
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلُّوْا کَمَا رَاَےْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ وَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلٰوۃُ فَلْےُؤَذِّنْ لَکُمْ اَحَدُکُمْ ثُمَّ لِےَؤُمَّکُمْ اَکْبَرُکُمْ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم مجھے جس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اسی طرح تم بھی پڑھا کرو، اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی اذان دے دیا کرے اور جو تم میں بڑا ہو وہ امام بن جایا کرے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ امامت کا مستحق وہی آدمی ہوگا جو علم و فضل میں سب سے بڑھا ہوگا اور اگر علم و فضل کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو آدمی عمر میں سب سے بڑا ہوگا وہ امام بنے گا۔
عمر سے مراد وہ عمر ہے جو ایمان و اسلام کی حالت میں گزری ہو یعنی جس آدمی کو اسلام قبول کئے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا ہو وہ حکمًا ان لوگوں سے بڑا قرار دیا جائے گا جو اس کے بعد ایمان و اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے ہیں خواہ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ پہلے اسلام قبول کرنے والے آدمی کو دین و شریعت کا علم بعد میں اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔