اذان کا بعض احکام کا بیان
راوی:
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حِےْنَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَۃِ خَےْبَرَ سَارَ لَےْلَۃً حَتّٰی اِذَا اَدْرَکَہُ الْکَرٰی عَرَّسَ وَقَالَ لِبِلَالٍ اِکْلَأ لَنَا اللَّےْلَ فَصَلّٰی بِلَالٌ مَّا قُدِّرَ لَہُ وَنَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَصْحَابُہُ فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلَالٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ مُوَجِّہَ الْفَجْرِ فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَےْنَاہُ وَھُوَ مُسْتَنِدٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ فَلَمْ ےَسْتَےْقِظْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلموَلَا بِلاَل ٌوَلَا اَحَدٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ حَتّٰی ضَرَبَتْھُمُ الشَّمْسُ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوَّلَھُمُ اسْتَےْقَاظًا فَفَزِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَیْ بِلَالُ فَقَالَ بِلَالٌ اَخَذَ بِنَفْسِی الَّذِیْ اَخَذَ بِنَفْسِکَ قَالَ اقْتَادُوْا فَاَقْتَادَوْا رَوَاحِلَھُمْ شَےْئًا ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَمَرَ بِلَالًا فَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ فَصَلّٰی بِہِمُ الصُّبْحَ فَلَمَّا قَضَی الصَّلٰوَۃَ قَالَ مَنْ نَسِیَ الصَّلٰوۃَ فَلْےُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔(پ ١٦ رکوع ١٠) (صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ (جب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غنودگی طاری ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کرنے کے لئے آخر رات میں ایک جگہ اتر گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارا خیال رکھنا (یعنی صبح ہو جائے تو ہمیں جگا دینا ) یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سو گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (تہجد کی) نماز جس قدر ہو سکی پڑھی۔ جب صبح صادق ہونے کو ہوئی، تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے کجاوے سے تکیہ لگا کر فجر (مشرق) کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے (تاکہ صبح صادق ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا یہاں تک کہ جب ان کے اوپر دھوپ آگئی اور اس کی گرمی پہنچی) تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر فرمایا کہ بلال یہ کیا ہوا؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے عرض) کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بھی اس چیز نے پکڑ لیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا تھا (یعنی نیند نے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں سے روانہ ہو جاؤ! چنانچہ سب لوگ تھوڑی دور تک اپنی اپنی سواریاں لے کر چلے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انہوں نے نماز کے لئے تکبیر کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا: جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر ) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) 20۔طہ : 14) یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔ " (صحیح مسلم)
تشریح
خیبر مدینہ سے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ہے، بنو نضیر کے یہودی جب مدینہ سے اجڑے تو خیبر جا بسے اور پھر خیبر یہودیوں کی سازشوں کا اڈا اور مرکز بن گیا۔ لہٰذا اسلام کی حفاظت کی خاطر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان کے اس شر انگیز ٹھانے کو توڑ دیا جائے چنانچہ سات ہجری میں تقریباً سولہ سو مسلمان مجاہدین کا لشکر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں خیبر روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔ یہ محاصرہ تقریباً دس روز تک جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور خیبر کے تمام قلعوں پر قبضہ ہو گیا۔ اس غزوہ کی کامیابی کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر رہا اور انہیں " فاتح خبیر" کے عظیم لقب سے نوازا گیا کہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا جھنڈا انہی کے ہاتھ دیا تھا ۔ اور یہی اسلامی لشکر کے کمانڈکر رہے تھے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک خاص بہادری ظاہر کرائی کہ خیبر کا پھاٹک جو ستر آدمیوں سے بھی نہیں اٹھتا تھا انہوں نے تنہا اسے اکھاڑ پھینکا۔ جب فتح خیبر ہو گئی تو مسلمانوں اور وہاں کے یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی دو خاص دفعات یہ تھیں۔
(١) جب تک مسلماں چاہیں گے یہودیوں کو خیبر میں رہنے دیں گے اور جب نکالنا چاہیں گے تو ان کو خیبر سے نکلنا ہوگا۔
(٢) پیداوار کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیا جائے گا۔
بہر حال۔ حدیث میں مذکورہ واقعہ اسی غزوے سے واپسی کے وقت پیش آیا تھا۔
اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد جب آنکھ کھل گئی تھی تو اسی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضا نماز کیوں نہ پڑھ لی؟ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو وہاں سے روانہ ہونے کا حکم دینے کا سبب کیا تھا؟ چنانچہ اس سلسلے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں حنفی علماء جن کے نزدیک طلوع آفتاب کے وقت قضا نماز پڑھنا منع ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ سے کوچ کرنے کا حکم اس وجہ سے دیا تھا تاکہ آفتاب بلند ہو جائے اور نماز کے لئے وقت مکروہ نکل جائے۔
شافعی علماء جن کے ہاں طلوع آفتاب کے وقت قضاء پڑھنی جائز ہے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے قضا نماز پڑھے بغیر فوراً اس لئے روانہ ہوئے کہ وہ جگہ شیاطین کا مسکن تھی جیسا کہ دوسری روایتوں میں اس کی تصریح موجود ہے چنانچہ صحیح مسلم ہی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ پھیل جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ ہر آدمی اپنی سواری کی عیال پکڑ لے (اور روانہ ہو جائے) اس لئے کہ اس جگہ ہمارے پاس شیطان آگیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف تکبیر کہنے کا حکم دیا، اذان کے لئے نہیں فرمایا: اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قضاء نماز کے لئے اذان دینا ضروری نہیں ہے جیساکہ قول جدید کے مطابق حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔ لیکن شافعی علماء کے نزدیک قول قدیم کے مطابق صحیح اور معتد مسلک یہی ہے کہ قضاء نماز کے لئے بھی اذان کہنی چاہئے۔
بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نماز کے لئے اذان کہی گئی تھی چنانچہ ہدایہ میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ التعریس(یعنی مذکورہ رات ) کی صبح کو نماز فجر کی قضا اذان و تکبیر کے ساتھ پڑھی تھی۔
شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سلسلے میں صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد کی کئی حدیثیں نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے تکبیر کہی۔ غر مرادف نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں صحیح طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اذان و تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی تھی، لہٰذا اس روایت میں فاقام الصلوۃ کے معنی یہ ہیں کہ " چنانچہ انہوں نے نماز کے لئے اذان کے بعد تکبیر کہی" ۔
یہاں ایک ہلکا سا خلجان اور پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل بیدار رہتا ہے۔ تو دل کے جاگتے رہنے کے باوجود اس کی کیا وجہ تھی کہ صبح صادق طلوع ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلع نہیں ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کو دیکھنا آنکھوں کا کام ہے دل کا کام نہیں ہے لہٰذا دل کی بیداری کے باوجود صبح صادق کے طلوع ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے مطلع نہیں ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو رہی تھی۔
اور اگر کوئی یہ سوال کے بیٹھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کشف یا وحی کے ذریعہ اطلاع کیوں نہ دی گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف تھا، نیز اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ اس طریقے سے امت کو قضا کے احکام معلوم ہوگئے۔