مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدِنِ الْخُدْرِیِّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی وَمَسْجِدِیْ ھٰذَا ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لئے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو) مسجد حرام، مسجد اقصی، (یعنی بیت المقدس اور میری مسجد (یعنی مسجد نبوی)۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
حدیث سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کہ خدانے ان کی عظمت و بزرگی کی زیادتی کے سبب انہیں ایک امتیازی شان عطا فرمائی ہے۔ کیس دوسری جگہ کا سفر جائز نہیں ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ اس ممانعت اور نہی کا تعلق تقرب و عبادت سے ہے یعنی تقرب الی اللہ اور عبادت سمجھ کر ان تینوں جگہوں کے علاوہ اور کسی جگہ کا سفر نہ کرنا چائے۔
ہاں اگر کسی دوسری جگہ تحصیل علم، ادائے حقوق ، تجارت یا ایسی ہی کسی دوسری ضرورت کی بناء پر سفر کرنا ہو تو یہ الگ چیز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے البتہ اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر جانے کے سلسلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے تو اسے مباح قرار دیا ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے کہ یہ حرام ہے یعنی محض اولیاء اللہ کے مزارارت کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر پہنچ کر حصول برکت کی خاطر مستقل سفر کرنا مطلقا جائز نہیں ہے۔
بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ نذر و منت کی نیت سے سفر کا قصد کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان تینوں مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ پہنچنے کی نذر مانی جائے تو اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس نہی کا تعلق صرف مساجد سے ہے یعنی حصول برکت اور زیارت کے ارادے سے ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کے لئے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں مساجد کے علاوہ دیگر مقامات خارج از مفہوم ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تینوں مقامات کے علاوہ دوسری جگہوں کا سفر کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ اس ارشاد کا مقصد دراصل ان تینوں مساجد کی اہمیت و عظمت اور فضیلت اور ان کے لئے سفر کرنے کی سعادت و خوش بختی ظاہر کرنا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطمح نظریہ ہے کہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ اگر وہ سفر کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان تینوں مساجد کی زیارت کے لئے سفر کریں یہ مساجد سب سے زیادہ باعظمت و فضیلت اور متبرک ترین مقامات ہیں۔ ان کے علاوہ کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا کوئی فلاح و سعادت کی بات نہیں ہے بلکہ بے فائدہ صعوبت و پریشانیوں کو برداشت کرنا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور معرکۃ الآر تصنیف حجۃ اللہ البالغۃ میں اس حدیث کی وضاحت کے دوران تحریر فرمایا ہے کہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کچھ مقامات کو اپنے گمان و خیال کے مطابق باعظمت و بابرکت تصور کر کے وہاں کا سفر کرتے تھے اور ان مقامات کی زیارت کرنے کو سعادت وبرکت کے حصول کا ذریعہ جانتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح اپنے وہم و گمان کے مطابق کسی جگہ اور مقام کو باعث برکت و فضیلت سمجھنا اور پھر خاص طور پر اس کی زیارت کے لئے وہاں جانا نہ صرف یہ کہ حقیقت سے انحراف اور عقیدہ اور ذہن و فکر کی کمزوری کی علامت ہے بلکہ فتنہ و فساد کا سبب بھی ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ و عمل کو راہ راست پر قائم رکھنے کی خاطر اس غلط طریقے کو بند فرما دیا تاکہ اسلامی شعائر کے ساتھ غیر شعائر جمع نہ ہو جائیں اور یہ طریقہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش کا سبب نہ بن جائے، چنانچہ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ مزارات اولیاء اللہ کی عبادت کرنے کی جگہیں یہاں تک کہ کوہ طور پر یہ سب اس سلسلہ میں برابر ہیں کہ خاص طور پر زیارت یا حصول برکت و سعادت کے جذبہ سے ان مقامات کا سفر کرنا مناسب نہیں ہے۔