مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 665

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

راوی:

وَعَنْ جَابِرٍ ص قَالَ خَلَتِ الْبِقَاعُ حَوْلَ الْمَسْجِدِ فَاَرَادَ بَنُوْ سَلِمَۃَ اَنْ ےَّنْتَقِلُوْا قُرْبَ الْمَسْجِدِ فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ لَھُمْ بَلَغَنِیْ اَنَّکُمْ تُرِےْدُوْنَ اَنْ تَنْتَقِلُوْا قُرْبَ الْمَسْجِدِ قَالُوْا نَعَمْ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَدْ اَرَدْنَا ذَالِکَ فَقَالَ ےَا بَنِیْ سَلِمَۃَ دِےَارُکُمْ تُکْتَبُ اٰثَارُکُمْ دِےَارُکُمْ تُکتَبُ اٰثَارُکُمْ۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے قریب کچھ مکان خالی ہوئے تو بنوسلمہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ مسجد کے قریب آجائیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کے اس ارادے کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! ہم نے یہی ارادہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو سلمہ! تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔" (صحیح مسلم)

تشریح
بنو سلمہ انصار مدینہ کا ایک خاندان ہے اس خاندان کے افراد مسجد نبوی سے دور رہتے تھے ۔ جب مسجد نبوی کے قریب رہنے والوں میں سے کچھ لوگوں کا انتقال ہو جانے یا کسی دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے ان کے مکانات خالی ہوئے تو بنو سلمہ نے مسجد نبوی کے قریب رہنے کی سعادت حاصل کی غرض سے ان خالی مکانات میں منتقل ہونے کا ارادے کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اس ارادہ کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم لوگ جہاں آباد ہو وہی جگہ سعادت و بھلائی کے اعتبار سے تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ تم لوگ مسجد سے جتنا دور رہو گے مسجد آنے کے لئے تمہیں اتنا ہی چلنا پڑے گا اور نماز کے لئے تم جتنے زیادہ قدم اٹھاؤ گے تمہارے نامہ اعمال میں ان کے بدلے اتنا ہی ثواب لکھا جائے گا اس لئے بھلائی و بہتری اسی میں ہے کہ تم اپنی سابق جگہ آباد رکہو۔

یہ حدیث شیئر کریں