ا اللہ کی تعریف اور سترے کے سامنے سے گزرنے کا حکم
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ جُحَےْفَۃَ صقَالَ رَأَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَکَّۃَ وَھُوَ بِالْاَبْطَحِ فِیْ قُبَّۃٍ حَمْرَآءَ مِنْ اَدَمٍ وَرَاَےْتُ بِلَالًا اَخَذَ وَضُوْۤءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَرَأَےْتُ النَّاسَ ےَبْتَدِرُوْنَ ذَالِکَ الْوَضُوْءَ فَمَنْ اَصَابَ مِنْہُ شَےْئًا تَمَسَّحَ بِہٖ وَمَنْ لَّمْ ےُصِبْ مِنْہُ اَخَذَ مِنْ بَلَلِ ےَدِ صَاحِبِہٖ ثُمَّ رَأَےْتُ بِلَالَا اَخَذَ عَنَزَۃً فَرَکَزَھَا وَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ حُلَّۃٍ حَمْرَآءَ مُشَمِّرًا صَلّٰی اِلَی الْعَنَزَۃِ بِالنَّاسِ رَکْعَتَےْنِ وَرَاَےْتُ النَّاسَ وَالدَّوَآبَّ ےَمُرُّوْنَ بَےْنَ ےَدَیِ الْعَنَزَۃِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ابطح کے مقام پر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ چمڑے کے ایک خیمے میں دیکھا اور میں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لیتے ہوئے دیکھا اور دوسرے لوگوں کو (بھی) میں نے دیکھا کہ وہ پانی حاصل کرنے میں بڑی عجلت کر رہے تھے۔ چنانچہ جس آدمی کو اس پانی میں سے کچھ مل گیا اس نے (برکت حاصل کرنے کے لئے) اسے (اپنے بدن اور منہ پر ) مل لیا اور جس آدمی کو کچھ نہ ملا اس نے ساتھ والے کے ہاتھ کی تری (ہی) لے کر مل لی پھر میں نے بلال کو دیکھا کہ انہوں نے نیزہ لے کر اسے گاڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ دھاری دار جوڑا پہنے اور دامن اٹھائے (خیمے سے) نکلے اور نیزے کی طرف کھڑے ہو کر صحابہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ آدمی اور چوپائے نیزہ کے سامنے آجا رہے تھے۔" (صحیح مسلم، صحیح البخاری )
تشریح
" ابطح" ایک نالہ کا نام ہے جو منیٰ کے راستہ میں مکہ کے قریب ہی واقع ہے اس نالے کو محصب اور بطحا بھی کہتے ہیں ۔ ابطح کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس نالہ میں سنگر یزے ہیں۔
" حلہ" دو کپڑوں یعنی لنگی اور چادر کو کہتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حلہ زیب تن فرما رکھا تھا وہ سرخ دھاری دار تھا پورا کپڑا سرخ نہیں تھا جو مردوں کو پہننا مکروہ تحریمی ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ سترے کے سامنے سے آدمیوں اور چوپاؤں کا گزرنا درست ہے۔