مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 754

نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ

راوی:

عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص اَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم جَالِسٌ فِیْ نَاحِےَۃِالْمَسْجِدِ فَصَلّٰی ثُمَّ جَآءَ فَسَلَّمَ عَلَےْہِ فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَعَلَےْکَ السَّلَامُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلّٰی ثُمَّ جَآءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَےْکَ السَّلاَمُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَقَالَ فِی الثَّالِثَۃِ اَوْ فِی الَّتِیْ بَعْدَھَا عَلِّمْنِیْ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاَسْبِغِ الْوُضُوْۤءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَےَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِِیَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا وَّفِیْ رِوَاےَۃٍ ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِیَ قَآئِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَالِکَ فِیْ صَلٰوتِکَ کُلِّھَا ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ (پہلے) اس نے نماز پڑھی، اس طرح کہ تعدیل ارکان اور قومہ و جلسہ کی رعایت نہیں کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا " جاؤ اور پھر نماز پڑھو اس لئے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی" وہ چلا گیا اور جس طرح پہلے نماز پڑھی تھی اسی طرح پھر نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دے کر پھر اس سے فرمایا کہ " جاؤ نماز پڑھو اس لئے کہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں" (اس طرح تین مرتبہ ہوا) تیسری مرتبہ یا چوتھی مرتبہ اس آدمی نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! مجھے سکھلا دیجئے ( کہ نماز کس طرح پڑھوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو (پہلے) اچھی طرح وضو کر لو۔ پھر قبلے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو کر تکبیر کہو پھر قرآن کی جو (سورت وغیرہ) تمہیں آسان معلوم ہو اسے پڑھو پھر سکون کے ساتھ رکوع کرو پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ پھر اطمینان کے ساتھ (دوسرا) سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ اور سکون کے ساتھ بیٹھ جاؤ ۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ " پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ (اس روایت میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں) پھر اپنی تمام نماز اسی طرح ادا کرو۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
طمانیت کا مطلب یہ ہے کہ رکوع یا سجود وغیرہ میں اس طرح پوری دلجمعی اور سکون خاطر کے ساتھ ٹھہرا جائے کہ بدن کے تمام جوڑ اپنی جگہ اختیار کر لیں اور ان ارکان میں جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں وہ پورے اطمینان کے ساتھ پڑھی جائیں۔
رکوع و سجود وغیرہ میں طمانیت فرض ہے یا واجب؟ : حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور حضرت امام ابویوسف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اس حدیث کے پیش نظر رکوع ، سجود، قومہ اور جلسہ میں طمانیت کی فرضیت کے قائل ہیں اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان کے فقدان کی بناء پر نماز کی نفی فرمائی ہے اور یہ چیز فرضیت کی علامت ہے کہ ایک فعل اس کے نہ ہونے سے منتفی اور باطل ہو جائے لہٰذا یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے ارکان میں آرام و سکون کو اختیار نہ کیا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی جس کا اعادہ ضروری ہوگا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک رکوع و سجود میں طمانیت واجب ہے اور قومہ و جلسہ میں سنت ہے یہ حضرات اس حدیث کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ یہاں نماز کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ نماز کے کمال کی نفی مراد ہے کیونکہ اس حدیث کے آخری الفاظ جو ابوداؤد، جامع ترمذی اور سنن نسائی میں منقول ہیں یہ ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے فرمایا کہ " اگر تم نے اسے (یعنی طمانیت کو) پورا کیا تو تمہاری نماز مکمل ہوئی اور اس میں سے تم نے جو کچھ کم کیا تو تم نے اپنی نماز ناقص کی۔ لہٰذا اس طرح کا حکم وجوب اور سنت کی علامت ہے کہ اس کے بغیر فعل ناقص و ناتمام ہوتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو نماز کا اعادہ کرنے کا حکم اس لئے نہیں دیا تھا کہ اس کی نماز سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی بلکہ اس اعادہ کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ نماز پورے کمال اور بغیر کسی کراہیت و نقصان کے ادا ہونی چاہئے۔ اور اگر طمانیت فرض ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو شروع ہی میں منع کر کے نماز پڑھنے سے روک دیتے اور اس کو بغیر فرائض کے نماز نہ پڑھنے دیتے۔
اس حدیث سے چند باتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے پہلی چیز تو یہ کہ عالم اور ناصح کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ کسی جاہل اور غلط کام کرنے والے کو نہایت نرمی اور اخلاق کے ساتھ سمجھائے اور اس کے ساتھ نصیحت کا ایسا نرم معاملہ کرے کہ وہ آدمی اس کی بات کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے پر خود مجبور ہو جائے کیونکہ بسا اوقات نصیحت کے معاملے میں بد اخلاقی و ترش روئی اصلاح و سدھار پیدا کرنے کی بجائے اور زیادہ ضد و ہٹ دھرمی اور گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ دوسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ ملاقات اگرچہ مکرر اور تھوڑی دیر کے بعد ہی ہو سلام کرنا مستحب ہے۔ تیسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی نماز کے واجبات میں کچھ خلل و نقصان پیدا کرے تو اس کی نماز صحیح ادا نہیں ہوتی اور وہ حقیقی معنی میں نمازی نہیں کہلاتا بلکہ اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اس آدمی نے نماز نہیں پڑھی۔ پہلی روایت میں جلسہ استراحت یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے سے اٹھ کر بیٹھنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت نہیں ہے اس کی مفصل تحقیق (انشاء اللہ ) آگے آئے گی۔

یہ حدیث شیئر کریں