مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 789

بسم اللہ بآواز بلند پڑھنی چاہئے یا آہستہ

راوی:

وَعَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانُوْا ےَفْتَتِحُوْنَ الصَّلٰوۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِےْنَ۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقاء نامدار صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما نماز الحمد اللہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت سورت فاتحہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے لیکن سورت فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا تمام ائمہ کے نزدیک متفق علیہ ہے کیونکہ دوسری احادیث سے بسم اللہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے خواہ بسم اللہ کو سورت فاتحہ کا جزء مانا جائے جیسا کہ شوافع فرماتے ہیں خواہ نہ مانا جائے جیسا کہ حنفیہ فرماتے ہیں۔
حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہاں الحمد اللہ رب العالمین سے مراد سورت فاتحہ ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورت فاتحہ سے نماز شروع کرتے تھے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی نے الم پڑھا تو اس سے مراد سورت بقرہ ہی لی جاتی ہے اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورت کا جزء ہے لہٰذا اس قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔
حنفیہ کی جانب سے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہاں مطلق نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے بلکہ آہستہ سے پڑھتے تھے اور بآواز بلند نماز کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے کیونکہ یہ بات پوری صحت کی ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ بآواز بلند پڑھی جانے والی نماز میں بھی آہستہ سے پڑھتے تھے۔
حضرت شیخ ابن ہمام نے بعض حفاظ حدیث (یعنی وہ لوگ جن کو بہت زیادہ احادیث زبانی یاد رہتی تھیں) سے نقل کیا ہے کہ کوئی بھی ایسی حدیث ثابت نہیں ہے جس میں بسم اللہ کا بآواز بلند پڑھنا بصراحت ثابت ہو تو وہاں اگر کوئی ایسی حدیث ثابت بھی ہے کہ جس سے بسم اللہ بآواز بلند پڑھنا ثابت ہوتا ہے تو اس کی اسناد میں کلام کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت سے بسم اللہ آہستہ پڑھنا بکثرت منقول ہے اور اگر اتفاقی طور پر کسی کے بارے میں بآواز بلند پڑھنا ثابت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو انہوں نے لوگوں کی تعلیم کے لئے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی ہوگی یا پھر ان مقتدیوں کی روایت ہے جو ان کے بالکل قریب نماز میں کھڑے ہوتے تھے کہ اگر وہ، بسم اللہ آہستہ سے بھی پڑھتے تھے تو مقتدی سن لیتے تھے اور اسی کو انہوں نے بآواز بلند پڑھنے سے تعبیر کیا۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب جامع ترمذی میں اس مسئلے سے متعلق دو باب قائم کئے ہیں ایک باب میں تو ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے بسم اللہ بآواز بلند پڑھنا ثابت ہے اور دوسرے باب میں وہ احادیث نقل کی ہیں جو آہستہ آواز سے پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور امام موصوف نے ترجیح انہیں احادیث کو دی ہے جن سے بآواز آہستہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے اور کہا ہے کہ اس طرف ( یعنی بسم اللہ آہستہ پڑھنے کے مسلک کے حق میں) اکثر اہل علم مثلاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین کرام وغیرہ ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں