مقتدی کی نماز کا طریقہ
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا صَلَّےْتُمْ فَاَقِےْمُوا صُفُوْفَکُمْ ثُمَّ لِےَؤُمَّکُمْ اَحَدُکُمْ فَاِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا وَاِذَا قَالَ غَےْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَےْھِمْ وَلاَ الضَّآلِےْنَ فَقُوْلُوْا اٰمِےْنَ ےُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ فَاِذَا کَبَّرَ وَرَکَعَ فَکَبِّرُوْا وَارْکَعُوْا فَاِنَّ الْاِمَامَ ےَرْکَعُ قَبْلَکُمْ وَےَرْفَعُ قَبْلَکُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتِلْکَ بِتِلْکَ قَالَ وَاِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ فَقُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ےَسْمَعُ اللّٰہُ لَکُمْ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَّفِیْ رِوَاےَۃٍ لَّہُ عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ وَقَتَادَۃَ وَاِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا۔
" اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم (با جماعت) نماز پڑھو تو (پہلے) اپنی صفوں کو سیدھی کرو پھر (تم میں سے) ایک آدمی تمہارا امام بنے، چنانچہ جب وہ امام تکبیر تحریمہ یعنی) اللہ اکبر کہے تو تم (بھی اللہ اکبر) کہو، جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کرے گا اور جب امام (رکوع میں جانے کے لئے ) اللہ اکبر کہے اور رکوع میں جائے تم بھی اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں چلے جاؤ اور امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے سر اٹھاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام کا پہلے سر اٹھانا پہلے رکوع کرنے کا بدلہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو اللہ تمہاری تعریف سنتا ہے۔ اور صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ " (صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کے الفاظ " فتلک بتلک" یعنی امام سے پہلے سر اٹھانا پہلے رکوع کرنے کا بدلہ ہے۔" کا مطلب یہ ہے کہ امام مقتدی سے پہلے رکوع سے سر اس لئے اٹھاتا ہے تاکہ امام اور مقتدی کے رکوع کی مقدار برابر ہو جائے ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد واضح طور پر یوں ہے کہ " جب امام رکوع میں تم سے پہلے گیا تو گویا اس وقت تمہارے اور امام کی رکوع کی مقدار برابر نہ رہی مگر جب امام نے رکوع سے تم سے پہلے سر اٹھایا اور تم نے اس کے بعد سر اٹھایا تو گویا تمہاری اس تاخیر سے وہ لمحہ پورا ہو گیا جس میں امام نے رکوع میں جانے میں تم سے پہل کی تھی اور جس طرح تم رکوع میں امام کے بعد گئے اس طرح رکوع سے اٹھے بھی امام کے بعد ہی لہٰذا امام اور مقتدی دونوں کے رکوع کی مقدار پوری ہوگئی۔
اس روایت سے معلوم ہتا ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمد کہے تو مقتدی اللہم ربنا لک الحمد کہیں مگر ایک دوسری روایت میں ربنا و لک الحمد ( واؤ کے ساتھ) کے الفاظ مروی ہیں۔ نیز ایک روایت میں اللہم ربنا ولک الحمد بھی مروی ہے۔
یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی اس مسئلے میں مستدل ہے کہ امام رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لک الحمد کہیں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک امام، مقتدی اور منفرد تینوں ہی کو یہ دونوں کلمات کہنے چاہئیں صاحبین سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے لیکن اس قید کے ساتھ کہ امام ربنا لک الحمد آہستہ آواز سے کہے۔
منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والے آدمی کے بارے میں متفقہ طور پر یہ حکم ہے کہ وہ دونوں کلمات کہے اگرچہ صرف ایک پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اکتفاء ربنا لک الحمد پر کیا جائے۔ دونوں کلمات کہنے کی صورت میں سمع اللہ اٹھتے ہوئے اور ربنا لک الحمد حالت قیام میں کہا جائے۔
حدیث کا آخری جملہ واذا قرأ فانصتوا (یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو) حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے خاموش رہنا چاہئے قرأت نہ کرنی چاہئے خواہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی۔