فرض نماز پڑھنے والے کو نفل نماز پڑھنے والے کی اقتدارء کرنا جائز ہے یا نہیں؟
راوی:
وعَنْ جَابِرٍ صقَالَ کَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ےُّصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ ےَاتِیْ فَےَؤُمُّ قَوْمَہُ فَصَلّٰی لَےْلَۃً مَّعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم الْعِشَآءَ ثُمَّ اَتٰی قَوْمَہُ فَاَمَّھُمْ فَافْتَتَحَ بِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فَانْحَرَفَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ صَلّٰی وَحْدَہُ وَانْصَرَفَ فَقَالُوْا لَہُ اَنَافَقْتَ ےَا فُلَانُ قَالَ لَا وَاللّٰہِ وَلَاٰتِےَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَاُخْبِرَنَّہُ فَاَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا اَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِالنَّھَارِ وَاِنَّ مُعَاذًا صَلّٰی مَعَکَ الْعِشَآءَ ثُمَّ اَتٰی قَوْمَہُ فَافْتَتَحَ بِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فَاَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی مُعَاذٍ وَّقَالَ ےَا مُعَاذُ اَفَتَّانٌ اَنْتَ اِقْرَأْ وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا وَالضُّحٰی وَالَّےْلِ اِذَا ےَغْشٰی وَسَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر آتے اور پھر اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتے تھے چنانچہ ( ایک دن) انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھی اور پھر آکر اپنی قوم کی امامت کی اور (نماز میں) سورت بقرہ شروع کر دی (جب قرأت طویل ہوئی تو ) ایک آدمی سلام پھیر کر جماعت سے نکل آیا اور تنہا نماز پڑھ کر چلا گیا لوگوں نے (جب یہ دیکھا تو اس سے کہا کہ " فلا نے ! کیا تو منافق ہوگیا ہے (کیونکہ جماعت سے جان بچا کر نکل بھاگنا تو منافقوں ہی کا کام ہے) اس نے کہا " نہیں اللہ کی قسم (میں منافق نہیں ہوا ہوں) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر حقیقت حال بیان کروں گا " چنانچہ وہ آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! ہم اونٹوں والے ہیں، دن کو کام کرتے ہیں (یعنی) اونٹوں کے ذریعے پانی کھینچ کر درختوں کی آبپاشی کرتے ہیں اور دن بھر محنت و مشقت میں لگے رہتے ہیں) معاذ رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر آئے اور ہمیں نماز پڑھائی اور سورت بقرہ شروع کر دی (لمبی قرأت ہونے اور اپنے تھکے ہوئے ہونے کی وجہ سے میں بد دل ہو گیا) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا " معاذ! کیا تم فتنے پیدا کرنے والے ہو ؟ (یعنی کیا تم لوگوں سے جماعت ترک کرا کر انہیں دین سے بیزار اور فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ بہتر یہ ہے کہ ) تم سورت والشمس وضحھا سورت والضحی سورت واللیل اذا یغشی اور سورت سبح اسم ربک الا علی پڑھا کرو۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ آدمی نعوذ باللہ جماعت یا نماز سے متنفر نہیں ہوا تھا بلکہ چونکہ دن بھر کی محنت و مشقت کی وجہ سے تھکا ماندہ تھا اس لئے جب قرأت لمبی ہوئی اور نماز نے طوالت اختیار کی تو یہ مجبور ہو کر جماعت سے نکل آیا اور اپنی نماز تنہا پڑھ لی۔ اسی وجہ سے جماعت سے نکلتے ہوئے باوجود اس کے کہ سلام پھیرنے کا کوئی موقعہ و محل نہ تھا اس نے سلام پھیرا کیونکہ اس نے سوچا کہ نماز سے سلام پھیر کر نکلے تاکہ کم سے کم نماز پوری ہونے کی مشابہت تو ہو ہی جائے۔
ایک دوسری روایت میں سبح اسم ربک الاعلی کے بعد کچھ اور سورتیں بھی ذکر کئی گئی ہیں مثلاً اذا السماء انفطرت اذا السماء انشقت اور سورت بروج و سورت طارق۔
حضرات شوافع نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ فرض نماز پڑھنے والے کو نفل نماز پڑھنے والے کی اقتدا کرنا جائز ہے اس لئے کہ حضرت معاذ ابن جبل جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے تو ان کی فرض نماز ادا ہو جاتی تھی اور اپنی جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھتے تھے نفل رہتی تھی اور ان کے مقتدیوں کی نماز فرض ہوتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو جائز رکھا انہیں اس عمل سے منع نہیں کیا۔
علماء حنفیہ کے نزدیک چونکہ فرض نماز پڑھنے والے کے لئے نفل نماز پڑھنے والے کی امامت میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اس لئے حضرات سوافع کو جواب دیا جاتا ہے کہ" نیت ایک ایسی چیز ہے جس پر کوئی دوسرا آدمی مطلع نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ خود نیت کرنے والا یہ نہ بتائے کہ اس نے کیا نیت کی تھی۔ لہٰذا یہ غالب ہے کہ حضرت معاذ ابن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بہ نیت فرض نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طریقہ نماز سیکھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی برکت و فضیلت حاصل کرنے نیز تہمت نفاق سے بچنے کی خاطر بہ نیت نفل نماز پڑھتے ہوں پھر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں فرض نماز پڑھاتے ہوں گے تاکہ دونوں فضیلتیں حاصل ہو جائیں لہذا حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو اس صورت پر محلول کرنا اولیٰ ہے کیونکہ یہ شکل تو بالا تفاق سب علماء کے نزدیک جائز ہے بخلاف پہلی شکل کے کہ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔
امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے :
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام کے لئے ضعیف و کمزور مقتدیوں کی رعایت کے پیش نظر نماز میں تخفیف کرنا سنت ہے اگر اسے اس بات کا احساس ہو کہ پیچھے مقتدی ضعیف و کمزور ہیں یا دن بھر کی محنت و مشقت سے تھکے ماندے ہیں یا نہیں کوئی دوسری مجبوری و تکلیف لا حق ہے تو اسے نماز ہلکی پھلکی پڑھانی چاہے اتنی لمبی قرأت نہ کرنی چاہئے جس سے ضعیف و کمزور لوگ تکلیف و پریشانی محسوس کریں اور اس بناء پر جماعت کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں۔