جمعہ کے روز نماز مغرب کی قراء ت
راوی:
وَعَنْ سُلَیْمَانَ ابْنِ یَسَارٍ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ مَا صَلَّیْتُ وَرَاءَ اَحَدٍ اَشْبَہَ صَلَاۃٍ بِرَ سُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ فُلَانٍ قَالَ سُلَیْمَانُ صَلَّیْتُ خَلْفَہ، فَکَانَ یُطِیْلُ الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ مِنَ الظُّھْرِ وَ یُخَفِّفُ الْاُ خْرَیَیْنِ وَیُخَفِّفُ الْعَصْرَ وَیَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ وَیَقْرَأُ فِی الْعِشَاءِ بِوَسْطِ المُصَفَّلِ وَیَقْرَأُ فِی الصُّبْحِ بِطِوَالِ الْمُفَصَّلِ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ وَرَوَی ابْنُ مَاجَۃَ اِلٰی وَیُخَفِّفُ الْعَصْرَ۔
" اور حضرت سلیمان ابن یسار رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی آدمی کے پیچھے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ نماز نہیں پڑھی مگر فلاں آدمی کے پیچھے سلیمان فرماتے ہیں کہ میں نے بھی اس آدمی کے پیچھے نماز پڑھی ہے ۔ وہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں کو طویل پڑھتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں کو ہلکی پڑھتے تھے، عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے۔ مغرب کی نماز میں قصار مفصل اور عشاء میں اوساط مفصل اور فجر کی نماز میں طوال مفصل پڑھا کرتے تھے اور ابن ماجہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے مگر ان کی روایت صرف و یخفف العصر تک ہے" (سنن نسائی )
تشریح
" فلاں آدمی" کے تعین کے سلسلے میں بعض حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات مراد ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے " فلاں آدمی" سے مراد وہ آدمی ہے جس کو خلیفہ مروان نے مدینہ میں حاکم مقرر کر رکھا تھا۔
اس حدیث میں ظہر اور عصر کی قرأت کا اجمالی طور پر ذکر کیا ہے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں طوال مفصل پڑھتے تھے۔ بلکہ صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ظہر کی نماز میں طویل قرأت کرتے تھے۔ اسی طرح عصر کی نماز کے بارے بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس میں قصار مفصل پڑھتے تھے یا اوساط مفصل؟ صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے
بہر حال نمازوں کی قرأت کے سلسلے میں فقہاء نے ایک اصول و نہج بنایا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نمازوں میں قرأت کرنے کے سلسلے میں عملی طور پر کوئی خلجان واقع نہ ہو اور وہ یہ کہ فجر اور ظہر کی نماز میں طوال مفصل و عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب قصار مفصل پڑھی جائیں۔ اس مسئلہ کی وضاحت اس سے پہلے بھی ایک حدیث کی تشریح کے ضمن میں کی جا چکی ہے اور وہاں اس کے اصطلاحی ناموں کی تعریف بھی کی گئی ہے چنانچہ ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجئے کہ فقہاء کی اصطلاح میں " مفصل" سے سورت حجرات سے سورت والناس تک کی سورتیں مراد ہیں ان سورتوں کو مفصل اس لئے کہا گیا ہے کہ " فصل" کے معنی جدا ہونے کے ہیں چنانچہ سورت حجرات سے ان چھوٹی چھوٹی سورتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ایک دوسری سے درمیان میں بسم اللہ ہونے کی وجہ سے جدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر مفصل یعنی سورت حجرات سے سورت و الناس تک کی سورتوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
(١) چھوٹی سورتیں (٢) متوسط سورتین (٣) بڑی سورتیں۔
سورت حجرات سے سورت بروج تک کو طوال مفصل یعنی مفصل کی بڑی سورتیں فرماتے ہیں۔
سورت بروج سے سورت لم یکن (البینہ) تک کو او ساط مفصل یعنی مفصل کی متوسط سورتیں فرماتے ہیں۔
اور سورت لم یکن سے سورت و الناس تک کو قصار مفصل کی چھوٹی سورتیں کہتے ہیں۔