رکوع و سجود کی تسبیحات
راوی:
وَعَنْ حُذَیْفَۃَ اَنَّہُ صَلّٰے مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَکَانَ یَقُوْلُ فِی رُکُوْعِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَفِی سُجُوْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلَی وَمَا اَتٰی عَلٰی اٰیَۃِ رَحْمَۃٍ اِلَّا وَقَفَ وَسَئَالَ وَمَا اَتٰی عَلٰے اٰیَۃِ عَذَابٍ اِلَّا وَقَفَ وَتَعَوَّذَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ وَ الدَّارِمِیُّ وَرَوَی النِّسَائِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ اِلٰی قَوْلِہِ الْاَعْلٰے وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
" ' اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدے میں سبحان ربی الاعلی پڑھتے تھے اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم (قرأت میں) کسی آیت رحمت پر پہنچتے تو وہاں رک جاتے اور طلب رحمت کی دعا کرتے اور جب کسی آیت عذاب پر پہنچتے تو وہاں رک کر عذاب سے پناہ مانگتے۔ ( ترمذی، سنن ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو سبحان ربی الاعلی تک نقل کیا ہے اور جامع ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔"
تشریح
علماء حنفیہ اور علماء مالکیہ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز پر محمول کرتے ہیں کیونکہ ان حضرات کے نزدیک فرض نماز میں درمیان قرأت دعا مانگنی اور پناہ مانگنی جائز نہیں ہے لیکن اس حدیث کو جواز پر حمل کرنا بھی ممکن ہے کیونکہ ہو سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بیان جواز کی خاطر فرض نماز میں بھی ایسا کیا ہو۔ شیخ جزری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو مسلم نے بھی نقل کیا ہے لہٰذا مؤلف مشکوٰۃ کو یہ حدیث دوسری فصل کی بجائے پہلی فصل میں نقل کرنی چاہئے تھی ۔