مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 849

رکوع و سجود کی تسبیحات

راوی:

وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُرَّۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَا تُرَوْنَ فِی الشَّارِبِ وَ الزَّانِی وَالسَّارِقِ وَذٰلِکَ قَبْلَ اَنْ تَنْزِلَ فَیْھِمُ الْحُدُوْدَ قَالُوْا اَﷲُ وَرَسُوْلَہ، اَعْلَمُ قَالَ ھُنَّ فَوَاحِشُ وَفِیْھِنَّ عَقُوْبَۃٌ وَاَسْوَءُ الْسَّرِقَۃِ الَّذِیْ یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہِ قَالُوْا وَ کَیْفَ یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہٖ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لَا یُتِمُّ رُکُوْعَھَا وَلَا سُجُوْدَ ھَا۔ (رواہ ملک و مسند احمد بن حنبل وروی دارمی نحوہ)

" حضرت نعمان بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا " شراب پینے والے، زنا کرنے والے، اور چوری کرنے والے کے بارے میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے (کہ وہ کس قدر گناہ گار ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال حدود نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ گناہ کبیرہ ہیں جن کی سزا بھی ہے اور بد ترین چوری وہ چوری ہے جو انسان اپنی نماز میں کرتا ہے۔" صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) انسان اپنی نماز میں چوری کیسے کرتا ہے' فرمایا " رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کرتا۔" (مالک، دارمی)

تشریح
نقل کردہ روایت میں لفظ ترون تا کے زبر کے ساتھ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تم کیا اعتقاد کرتے ہو؟ لیکن ایک نسخے میں تا کے پیش کے ساتھ بھی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ راوی کے الفاظ میں یہ سوال حدود نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ وجہ سوال کو ظاہر کر رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اس وقت کیا تھا جب کہ ان افعال کی برائی صحابہ کرام کو اچھی طرح معلوم نہ تھی جب ان افعال بد کی حدود (سزائیں) متعین ہوگئیں تو پھر سب کے ذہن میں ان کی برائی راسخ ہوگئی اور ان میں کوئی شبہ نہ رہا۔

یہ حدیث شیئر کریں