مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 874

التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ

راوی:

وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُعَلِّمُنَا التَّشَھُّدَ کَمَا ےُعَلِّمُنَا السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ فَکَانَ ےَقُوْلُ التَّحِےَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّےِّبٰتُ لِلّٰہِ السَّلَامُ عَلَےْکَ اَےُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلَامُ عَلَےْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِےْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ- (رَوَاہُ مُسْلِم)
وَلَمْ اَجِدْ فِی الصَّحِیْحَیْنَ وَلَا فِی الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّحِیْحَیْنَ سَلَامٌ عَلَیْکَ وَسَلَامٌ عَلَیْنَا بِغَیْرِ اَلْفٍ وَلَامٍ وَلٰکِنْ رَوَاہُ صَاحِبُ الْجَا مِعِ عَنِ التِّرمِذِیِّ۔

" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے اسی طرح تشہد سکھایا کرتے تھے چنانچہ کہا کرتے تھے " التَّحِیاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّیبٰتُ لِلّٰہِ السَّلَامُ عَلَیکَ اَیھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ " تمام با برکت تعریفیں اور تمام مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! تم پر سلام اور اللہ کی برکت و رحمتیں " ہم پر بھی سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔" (صحیح مسلم)
اور مولف مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ میں نے نہ تو صحیحین (یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں) اور نہ جمع بین صحیحین میں لفظ " سلام علیک" اور " سلام علینا " بغیر الف لام کے پایا ہے البتہ اس طرح اس کو صاحب جامع الاصول نے جامع ترمذی (کے حوالہ) سے نقل کیا ہے۔

تشریح
اس روایت میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے تشہد یعنی التحیات کے جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں اس پر حضرات شافعیہ عمل کرتے ہیں اور التحیات میں انہی الفاظ کو پڑھتے ہیں لیکن حنفیہ حضرات کے ہاں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روایت کردہ تشہد کے الفاظ پر جو اس سے پہلی روایت میں گذرے ہیں عمل کیا جاتا ہے ۔ حضرت عبدا اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روایت کردہ تشہد کے بارے میں محدثین صراحت کرتے ہیں کہ یہ صحیح تر ہے۔
چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " تشہد کے سلسلے میں جتنی احادیث مروی ہیں ان سب میں سے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث سب سے زیادہ صحیح تر ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پر عمل کرتے ہیں اور صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم کا معمول بھی انہیں کی حدیث کے مطابق تھا۔ پھر یہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ تشہد کے لئے حکم فرمایا تھا کہ اسے لوگوں کو سکھایا جائے، چنانچہ مسند امام احمد ابن حنبل میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن مسعود کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اسی تشہد کو لوگوں کو سکھائیں۔
ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح مجھے قرآن کی تعلیم دیتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا۔
پھر حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایتوں میں یہ بھی بڑا فرق ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو تو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت کو صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔
حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے وہ تشہد اختیار فرمایا ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے یعنی " التحیات للہ الذا کیات للہ الطیبات للہ السلام علیک ایھا النبی الخ۔
بہر حال علماء لکھتے ہیں کہ یہ پوری بحث صرف اولیت وا فضیلت سے متعلق ہے یعنی حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تشہد پڑھنا افضل ہے اور حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی تشہد پڑھنا افضل ہے۔ لیکن جہاں تک جواز کا سوال ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے جو تشہد بھی چاہے پڑھ لیا جائے جائز ہوگا۔
روایت کے آخری الفاظ ولم اجد (الخ ) سے دراصل مولف مشکوٰۃ، صاحب مصابیح پر ایک اعتراض کر رہے ہیں وہ کہ یہ صاحب مصابیح نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی تشہد میں " سلام علیک" اور " سلام علینا " کو بغیر الف لام کے ذکر کیا ہے ۔ حالانکہ اس طرح یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول نہیں لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر کرنا صحیح نہیں ہے۔ وا اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں