مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 892

درود نہ بھیجنے پر وعید

راوی:

وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ وَرَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ اَنْ یُغْفَرَلَہ، وَرَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ اَدْرَکَ عِنْدَہ، اَبَوَاہُ الْکِبَرَ اَوْاَحَدُ ھُمَا فَلَمْ یُدْخِلَاہُ الْجَنَّۃَ۔ (رواہ الترمذی)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھے پر درود نہ بھیجا، خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس پر رمضان آیا اور اس کی بخشش سے پہلے گذر گیا اور خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس کے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک نے اس کے سامنے بڑھاپا پایا اور انہوں نے اسے جنت میں داخل نہیں کیا۔" (جامع ترمذی )

تشریح
اس حدیث میں تین قسم کے لوگوں کے لئے و عید بیان کی جا رہی ہے، سب سے پہلے ان لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جن کے سامنے سرور کائنات فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک کیا جائے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجیں کہ ان کی ناک خاک آلود ہو یعنی وہ ذلیل و خوار ہوں اور ہلاک ہوں۔
بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مجلس میں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی لیا جائے ہر مرتبہ درود بھیجنا یعنی صلی اللہ علیہ وسلم کہنا واجب ہوتا ہے کیونکہ اس کے ترک پر اتنی شدت کے ساتھ وعید بیان فرمائی جا رہی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ پچھلے صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ ہر مرتبہ درود بھیجنا واجب نہیں ہے صرف ایک مرتبہ دورد بھیجنا واجب ہے البتہ ہر مرتبہ درود بھیجنا مستحب و افضل ہے اب اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ وجوب کی دلیل آخرت کی وعید ہوتی ہے اور چونکہ اس وعید کا تعلق آخرت سے نہیں ہے اس لئے اس کا انتہائی امر یہ ہے کہ یہ وعید ہر مرتبہ درود بھیجنے کے استحباب و فضیلت پر دلالت کرتی ہے نہ کہ وجوب پر۔
دوسرے قسم کے لوگ جن کے لئے وعید بیان کی جا رہی ہے وہ ہیں جو رمضان کے حقوق ادا نہیں کرتے نہ تو روزہ ہی ٹھیک سے رکھتے ہیں اور نہ رمضان میں عبادتیں ہی پورے ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور چونکہ یہ تمام چیزیں مغفرت اور بخشش کا ذریعہ ہیں اس لئے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے لئے تباہی و ہلاکت ہو جو رمضان میں اس مقدس مہینے کے فضل و شرف سے محروم رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس مہینے میں بخشش کی سعادت سے نوازے بھی نہیں جاتے اور یہ مہینہ اپنی تمام سعادتوں کے ساتھ گذر جاتا ہے۔
تیسری قسم کے لوگ جن سے اس نوعیت کا تعلق ہے وہ ہیں جو اپنے ماں باپ کے اطاعت گذار فرما نبردار نہیں ہیں۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا، ان کے حقوق ادا نہ کئے، اس کی رضا مندی و خوشنودی کا خیال نہیں رکھا اور خاص طور پر ان کی کبر سنی میں ان کی خدمت اور دیکھ بھال نہیں کی اور درحقیقت بڑے بدنصیب ہیں کیونکہ انہوں نے ان چیزوں کو ترک کر کے آخرت کا عذاب اور نقصان مول لیا ہے کہ یہ چیزیں جنت میں داخل ہونے کا سبب اور ذریعہ ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں