مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 912

نماز کے بعد امام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے

راوی:

وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ لَا ےَجْعَلُ اَحَدُکُمْ لِلشَّےْطَانِ شَےْئًا مِنْ صَلٰوتِہٖ ےَرٰی اَنَّ حَقًّا عَلَےْہِ اَنْ لاَّ ےَنْصَرِفَ اِلَّا عَنْ ےَّمِےْنِہٖ لَقَدْ رَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَثِےْرًا ےَّنْصَرِفُ عَنْ ےَّسَارِہٖ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی نماز میں شیطان کا حصہ مقرر نہ کرے (یعنی ) اس چیز کو لازم جانے کہ (نماز کے بعد) دائیں جانب ہی سے پھرے، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر بائیں جانب سے پھرا کرتے تھے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد کبھی تو دائیں جانب سے پھیرتے تھے اور بائیں طرف بیٹھتے تھے، اور بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر کر دعا مانگتے اور اپنے حجرہ شریف کی جانب (جو بائیں طرف تھا) تشریف لے جاتے تو کبھی اس کے برعکس کرتے تھے بائیں طرف سے پھر کر دائیں طرف بیٹھ جاتے تھے۔
پہلے طریقے کو عزیمت یعنی اولیت پر محمول کیا گیا ہے کیونکہ اس میں دائیں طرف سے ابتداء ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافعل اکثر اسی طرح ہوتا ہے، لیکن حضرت ابن مسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ دوسری صورت یعنی بائیں طرف سے پھرنا اگرچہ رخصت یعنی جائز ہے اور اس صورت کو کم ہی اختیار بھی کیا جاتا تھا لیکن سنت کو واجب کا درجہ دینا چونکہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے صرف پہلی صورت یعنی دائیں طرف سے پھرنے کو لازم و واجب قرار نہ دیا جائے اور شارع کی جانب سے دی گئی رخصت (یعنی اجازت) کو کہ وہ دوسری صورت سے ناقابل اختیار نہ جانا جائے اس لئے کہ حدیث شریف میں وارد ہے " حق تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی جانب سے عنایت کی گئی رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسا کہ وہ عزیمتوں پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔"
یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ چیز پسندیدہ اور محبوب ہے کہ اس عمل کو اختیار کیا جائے جس میں عزیمت یعنی اولیت ہے، اسی طرح اس کے نزدیک یہ چیز بھی قابل قبول اور پسندیدہ ہے کہ ان اعمال کو بھی اختیار کیا جائے جن کو حق تعالیٰ نے اولیٰ و افضل نہ سہی بہر حال جائز مقرر کر رکھا ہے۔
حضرات شوافع نے ان احادیث سے مصلی کے لئے یہ درمیانی طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت و سہولت جس طرف دیکھے، اسی طرف پھرے یعنی اگر اس کا مکان وغیرہ اس کے دائیں جانب ہے تو اسے دائیں طرف پھرنا چاہیے اور اگر بائیں طرف ہو تو اسے بائیں طرف پھرنا ہے چاہیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی منقول ہے کہ " رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مقتدیوں کی طرف بھی منہ کر کے اور پشت قبلے کی طرف کر کے بیٹھتے تھے" جیسا کہ اوپر والی حدیث میں گذرا۔
" نماز میں شیطان کا حصہ" اس لئے کہا گیا ہے کہ جب کوئی آدمی ایک غیر لازم چیز کو اپنے اوپر واجب و لازم ہونے کا اعتقاد کرے گا تو گویا وہ شیطان کا تابع ہوا لہٰذا اس کی نماز کا کمال جاتا رہے گا۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جس آدمی نے کسی امر مستحب کو مستقل طریقہ سے اختیار کئے رکھا اور اسے لازم کا درجہ دے دیا اور رخصت (یعنی جواز) پر عمل نہ کیا تو سمجھو کہ شیطان اسے گمراہ کرنے کے لئے اس کے پاس پہنچ گیا ہے۔"
کاش کہ اہل بدعت اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ انہوں نے امر مستحب تو کجا خلاف شرع چیزوں اور بدعات کو اپنے اوپر لازم و واجب گردان کر اپنے آپ کو ضلالت و گمراہی کی کس وادی میں پھینک رکھا ہے اور اپنے اوپر شیطان کو کتنا مسلط کر رکھا ہے۔
یہ چاروں حدیثیں یعنی حدیث عامر ، حدیث سمرہ ، حدیث انس اور حدیث عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس باب کے موضوع سے متعلق تو نہیں ہیں البتہ اس کے متعلقات سے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں