مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 926

فرض کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کی مقدار

راوی:

وَعَنْ عَآئِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا سَلَّمَ لَمْ ےَقْعُدْ اِلَّا مِقْدَارَ مَا ےَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ےَا ذَالْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ۔ (صحیح مسلم)

" اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب (فرض نماز کا ) سلام پھیر لیتے تھے تو صرف اس دعا کے بقدر بیٹھتے تھے اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یاذای الجلال و الاکرام۔ (رواہ صحیح مسلم) اے اللہ ! تو سالم ہے (یعنی تمام عیوب سے پاک ہے) اور تجھی سے (بندوں کی تمام آفات سے ) سلامتی ہے ۔ اے بزرگی و بخشش والے تو برتر ہے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان کے سلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی قدر بیٹھتے تھے کہ یہ دعا پڑھ لیں۔ لیکن جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں ۔ جیسے فجر، عصر ، ان کے سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے زیادہ بیٹھنا بھی ثابت ہے، چنانچہ اسی بناء پر علماء کرام لکھتے ہیں کہ ان نمازوں کے بعد طلوع آفتاب و غروب آفتاب تک ذکر میں مشغول رہنا مستحب ہے۔
سلام کے بعد " نہ بیٹھنے" کی ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیت نماز میں صرف اتنی ہی دیر تک بیٹھے رہتے کہ یہ دعا پڑھ لیں یا یہ کہ آپ اکثر و بیشتر صرف اسی قدر بیٹھتے تھے۔
یہاں جو دعا ذکر کی گئی ہے اس میں یہ الفاظ بھی پڑھے جاتے ہیں والیک یرجع السلام فحینا ربنا بالسلام وادخلنا دار السلام حالانکہ یہ الفاظ احادیث سے ثابت نہیں ہیں بلکہ بعد میں ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں