مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 937

طلوع و غروب آفتاب تک ذکر میں مشغول رہنے کی فضلیت

راوی:

وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی الْفَجْرَ فِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُ اﷲَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَانَتْ لَہُ کَاَجْرِ حَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ۔ (رواہ الجامع ترمذی)

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی فجر کی نماز جماعت سے پڑھے اور طلوع آفتاب تک اللہ کی یاد میں مشغول رہے اور پھر دو رکعت نماز پڑھے تو اسے حج و عمرے کی مانند ثواب ملے گا راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پورے حج وعمرے کا پورے حج و عمرے کا پورے حج و عمرے کا ثواب اسے ملے گا۔ " (جامع ترمذی )

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو آدمی فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کر اسی مسجد میں اور اسی مصلی پر طلوع آفتاب تک ذکر الٰہی میں مسلسل مشغول رہے اور پھر اس کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھے تو اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ ایک پورے حج و عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی حالت ذکر میں طواف کے لئے یا طلب علم کے لئے اور یا مسجد ہی میں مجلس و عظ میں جانے کے لئے مصلے سے اٹھایا اسی طرح کوئی آدمی وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر چلا آئے مگر ذکر الٰہی میں برابر مشغول بھی رہے تو اسے بھی مذکورہ ثواب ملے گا۔
ذکر سے فارغ ہو کر طلوع آفتاب کے بعد دو رکعت نماز سورج کے ایک نیزے کے بقدر بلند ہو جانے کے بعد پڑھنی چاہئے تاکہ وقت کراہت ختم ہو جائے اس نماز کو نماز اشراق کہتے ہیں اور اکثر احادیث میں اس کا نام صلوۃ الضحٰی بھی منقول ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں جن کے الگ الگ یہ دو نام ہیں۔ اس کا ابتدائی وقت آفتاب کے بلند ہو جانے کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور انتہائی وقت سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے ہے۔ ابتدائی وقت بھی پڑھی جانے والی نماز کو " نماز اشراق" کہتے ہیں اور انتہائی وقت میں پڑھی جانے والی نماز" نماز چاشت" کے نام سے تعبیر کی جاتی ہے۔
فرمایا گیا ہے کہ ایسے آدمی کو حج و عمرے دونوں کا ثواب فرض نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی بناء پر ملتا ہے اور عمرے کا ثواب نفل نماز (یعنی نماز اشراق) پڑھنے کی وجہ سے ملتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں