مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 945

نماز میں سلام کا جواب دینا حرام ہے

راوی:

وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ فِی الصَّلٰوۃِ فَےَرُدُّ عَلَےْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِالنَّجَاشِیِّ سَلَّمْنَا عَلَےْہِ فَلَمْ ےَرُدَّ عَلَےْنَا فَقُلْنَا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَےْکَ فِی الصَّلٰوۃِ فَتَرُدُّ عَلَےْنَا فَقَالَ اِنَّ فِی الصَّلٰوۃِ لَشُغْلًا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہوتے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے پھر کچھ دنوں کے بعد جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے (حسب معمول ) ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب نہیں دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو) ہم نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! ہم آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو نماز میں سلام کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے تھے آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب کیوں نہیں دیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز خود ایک بڑا شغل ہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ملک حبشہ کا بادشاہ ایک عیسائی تھا جس کا لقب نجاشی تھا چونکہ یہ ایک عالم تھا اس لئے جب توریت و انجیل کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی برحق ہونا معلوم ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لا کر اللہ کے اطاعت گزار بندوں میں شامل ہوگئے، جب ٩ھ میں ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت افسوس ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ہمراہ کھڑے ہو کر ان کے جنازے کی غائبانہ نماز پڑھی۔
چونکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ عقیدت تھی اس لئے جب مسلمان مکہ میں کفار کے ہاتھوں بڑی اذیت ناک تکالیف میں مبتلا ہوگئے اور ان کی جانوں کے لالے پڑگئے تو اکثر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر ان کے ملک کو ہجرت کر گئے انہوں نے اپنے ملک میں صحابہ کی آمد کو اپنے لئے دین و دنیا کی بہت بڑی سعادت سمجھ کر صحابہ کی بہت زیادہ خدمت کی اور ان کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے بعد میں جب صحابہ کو علم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے جا چکے ہیں تو وہ بھی مدینہ چلے آئے۔
چنانچہ اسی وقت کا واقعہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرما رہے ہیں کہ حبشہ سے واپس آنے والے قافلے میں میں بھی شریک تھا جب ہم لوگ مدینے پہنچ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز پڑھ رہے تھے ہم نے حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے استفسار پر فرمایا کہ نماز خود ایک بہت بڑا شغل ہے یعنی نماز میں قرآن و تسبیحات اور دعا مناجات پڑھنے کا شغل ہی اتنی اہمیت و عظمت کا حامل ہے کہ ایسی صورت میں کسی دوسرے آدمی سے سلام و کلام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے یا یہ کہ نمازی کا فرض ہے کہ نماز میں پورے انہماک کے ساتھ مشغول رہے اور جو کچھ نماز میں پڑھے اس پر غور کرے اور نماز کے سوا کسی دوسری جانب خیال کو متوجہ نہ ہونے دے اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں کسی کے سلام کا جواب دینا یا کسی سے گفتگو کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
سر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا مفسد نماز نہیں : شرخ منیہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی کسی کے سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارے سے دے یا اسی طرح کوئی آدمی نمازی سے کسی چیز کو طلب کرے اور وہ سر یا ہاتھوں سے ہاں یا نہیں کا اشارہ کرے تو اس کی نماز فاسد تو نہیں البتہ مکروہ ہو جائے گی۔

یہ حدیث شیئر کریں