مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 950

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی نواسی کو نماز میں کندھے پر بٹھانا

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ قال ص رَأَےْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَؤُمُّ النَّاسَ وَاُمَامَۃُ بِنْتُ اَبِیْ الْعَاصِ عَلٰی عَاتِقِہٖ فَاِذَا رَکَعَ وَضَعَھَا وَاِذَارَفَعَ مِنَ السُّجُوْدِ اَعَادَھَا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم (ایک روز) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی) امامہ بنت ابوالعاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک کندھے پر بیٹھی تھیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے امامہ کو (اشارے سے نیچے) بٹھا دیتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ابوالعاص سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے جن کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب سے رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوئی تھی انہیں کی بیٹی کا نام امامہ تھا۔
ایک اشکال اور اس کا جواب : یہاں یہ ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامہ کو اٹھانا اور نیچے بٹھاناور پھر اٹھا کر کندھے پر رکھنا فعل کثیر ہوا اور اگر فعل کثیر نہ بھی ہو ( فعل کثیر وہ ہے جو بار بار کیا جائے اور خصوصاً دونوں ہاتھوں سے کیا جائے۔) تو قلیل فعل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اس لئے حالت نماز میں یہ فعل مکروہ ضرور تھا لہٰذا سمجھ میں نہیں آتا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟
خطابی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامہ کو اٹھانا اور بٹھانا قصدا نہ تھا چونکہ امامہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ مانوس تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک کندھے پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھیں اور پھر رکوع کے وقت کندھے سے گر پڑتی تھیں گویا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اتارتے تھے لہٰذا ان کو کندھے سے اتارنا یا کندھے پر بٹھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نہیں ہوا بلکہ اس فعل کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مجازا کر دی گئی اس توجیہ کے پیش نظر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فعل کثیر تھا کیونکہ فعل کثیر تو اس فعل کو کہتے ہیں جو پے در پے کیا جائے اور یہاں پے در پے نہیں پایا جاتا۔ ایک توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس وقت کا ہے جب نماز میں فعل کثیر حرام نہیں ہوا تھا یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں