مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 963

نماز میں شیطانی اثرات

راوی:

وَعَنْ عَدِیِّ ابْنِ ثَابِتٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ رَفَعَہ، قَالَ اَلْعُطَاسُ وَالنُّعَاسَ وَالتَّثَاءُ بُ فِی الصَّلٰوۃِ وَالْحَیْضُ وَالْقُئُ وَالرُّعَافُ مِنَ الشَّیْطٰنِ۔ (رواہ الترمذی)

" اور حضرت عدی ابن ثابت اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے والد یعنی عدی کے دادا سے جنہوں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا ہے نقل کرتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نماز میں چھینکنا، اونگھنا ، جمائی کا آنا اور حیض کا آنا اور قے کا ہونا اور نکسیر کا پھوٹنا شیطان کے (اثر) سے ہے۔" (جامع ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں جب نماز میں پیدا ہوتی ہیں تو شیطان بہت زیادہ خوش ہوتا ہے کیونکہ ان چیزوں سے نماز پر اثر پڑتا ہے ۔ یہاں چھینک سے مراد بکثرت چھینکنا ہے لہٰذا یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چھینکنے کو پسند کرتا ہے کیونکہ اس چھینکنے سے مراد معتدل طریقے پر چھینکنا ہے اور معتدل کا اطلاق تین سے کم پر ہوتا ہے۔
ان دونوں احادیث کے درمیان ظاہری وجہ تطبیق یہ ہو سکتی ہے کہ " نماز کے علاوہ دوسرے اوقعات میں چھینکنے کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور مکروہ چھینک وہ ہے جو نماز میں آئے۔
ان چیزوں سے شیطان اس لئے خوش ہوتا ہے کہ چھینکنا قرأت و حضور کے لئے مانع ہے اور اونگھ اور جمائی عبادت میں کسل و سستی کا باعث ہیں اور حیض و نکسیر و قے مفسد صلوٰۃ ہیں۔
حدیث میں پہلی تین چیزوں (چھینک ، اونگھ ، جمائی کے) ذکر کے بعد " فی الصلوٰۃ" ذکر کے آخر کی تین چیزیں (یعنی حیض، قے، نکسیر) کو جدا کر دیا گیا ہے اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ پہلی تین چیزیں مفسد صلوٰۃ نہیں ہیں بلکہ مکروہ ہیں جب کہ آخری تینوں چیزیں مفسد صلوٰۃ ہیں یعنی ان سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں