مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 978

رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدئہ سہو کا حکم

راوی:

عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا قَامَ ےُصَلِّیْ جَا ءَ ہُ الشَّےْطَانُ فَلَبَسَ عَلَیْہِ حَتّٰی لَا ےَدْرِیْ کَمْ صَلّٰی فَاِذَا وَجَدَ ذَلِکَ اَحَدُکُمْ فَلْےَسْجُدْ سَجْدَتَےْنِ وَھُوَ جَالِسٌ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے شک و شبہ میں مبتلا کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس (نمازی) کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں، لہٰذا تم میں سے کسی کو اگر یہ صورت پیش آئے تو اسے چاہیے کہ وہ آخری قعدے میں) بیٹھ کر دو سجدے کرے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ سہو سے متعلق نہیں ہے بلکہ شک کی صورت ہے اور شک و سہو کے درمیان فرق یہ ہے کہ سہو میں ایک جانب کا تعین ہوتا ہے (کہ فلاں چیز بھول گیا ) اور شک میں تردد ہوتا ہے کہ آیا یہ صحیح ہے یا وہ اور شیطان ملعون کی کیا مجال تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شک و شبہ میں مبتلا کر دیتا۔ ہاں غلبہ استغراق اور آخرت کی طرف بے انتہا توجہ کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہو جاتا تھا۔ سجدہ سہو واجب ہونے کے سلسلہ میں شک اور سہو دونوں کا یکساں حکم ہے، اس مسئلے کی پوری وضاحت آئندہ حدیث کے فائدہ میں ملا حظہ فرما یے۔

یہ حدیث شیئر کریں