مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 981

رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدئہ سہو کا حکم

راوی:

وَعَنِ ابْنِ سِےْرِےْنَ صعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِحْدٰی صَلٰوتَیِ الْعَشِیِّ قَالَ ابْنُ سِےْرِےْنَ قَدْ سَمَّاھَا اَبُوْ ھُرَےْرَۃَ وَ لٰکِنْ نَّسِےْتُ اَنَا قَالَ فَصَلّٰی بِنَا رَکْعَتَےْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ اِلٰی خَشْبَۃٍ مَّعْرُوْضَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَاَ تَّکَأَ عَلَےْھَا کَاَنَّہُ غَضْبَانٌ وَوَضَعَ ےَدَہُ الْےُمْنٰی عَلَی الْےُسْرٰی وَشَبَّکَ بَےْنَ اَصَابِعِہٖ وَوَضَعَ خَدَّہُ الْاَےْمَنَ عَلٰی ظَھْرِ کَفِّہِ الْےُسْرٰی وَخَرَجَتْ سَرْعَانُ الْقَوْمِ مِنْ اَبْوَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالُوْا قُصِرَتِ الصَّلٰوۃُ وَفِی الْقَوْمِ اَبُوْ بَکْرٍ وَّعُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَھَابَاہُ اَنْ ےُّکَلِّمَاہُ وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ فِیْ ےَدَےْہِ طُوْلٌ ےُقَالُ لَہُ ذُوْالْےَدَےْنِ قَالَ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَسِےْتَ اَمْ قُصِرَتِ الصَّلٰوۃُ فَقَالَ لَمْ اَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ فَقَالَ اَکَمَا ےَقُوْلُ ذُوالْےَدَےْنِ فَقَالُوْا نَعَمْ فَتَقَدَّمَ فَصَلّٰی مَا تَرَکَ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ کَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُوْدِہٖ اَوْ اَطْوَلَ ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَہُ وَکَبَّرَ ثُمَّ کَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُوْدِہٖ اَوْ اَطْوَلَ ثُمَّ رَفَعَ رَاسَہُ وَکَبَّرَ فَرُبَّمَا سَاَلُوْہُ ثُمَّ سَلَّمَ فَےُقُوْلُ نُبِّئْتُ اَنّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَےْنٍ قَالَ ثُمَّ سَلَّمَ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَلَفْظُہُ لِلْبُخَارِیِّ وَفِیْ اُخْرٰی لَھُمَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَدْلَ لَمْ اَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ کُلُّ ذَالِکَ لَمْ ےَکُنْ فَقَالَ قَدْکَانَ بَعْضُ ذَالِکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔

" اور حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( آپ کا اسم گرامی محمد اور کنیت ابوبکر ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کے تیس بچے تھے جو آپ کی زندگی ہی میں سوائے ایک کے وفات پاگئے صرف ایک صاحبزادے عبداللہ بن محمد بن سیریں بقید حیات تھے۔ ستر سال کی عمر میں ١۱٠ھ میں ان انتقال ہوا۔) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا " (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز جس کا نام ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو بتایا تھا مگر میں بھول گیا، ہمیں پڑھائی۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور تیسری رکعت کے لئے اٹھنے کی بجائے سلام پھیر لیا، پھر اس لکٹری کے سہارے جو مسجد میں عرضا کھڑی تھی کھڑے ہو گئے اور (محسوس ایسا ہوتا تھا ) گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی حالت میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور انگلیوں
میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنا بایاں رخسار مبارک اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ لیا۔ جلد باز لوگ (جو نماز کی ادائیگی کے بعد ذکر اور دعا وغیرہ کے لئے نہیں ٹھہرتے تھے ) مسجد کے دروازوں سے جانے لگے، صحابہ کہنے لگے کہ کیا نماز میں کمی ہو گئی ہے ؟ ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعت کے بجائے دو ہی کعتیں پڑھی ہیں؟) صحابہ کے درمیان (جو مسجد میں باقی رہ گئے تھے) حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی موجود تھے مگر خوف کی وجہ سے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرنے کی جرات نہ ہوئی صحابہ میں ایک اور آدمی (بھی ) تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور جنہیں (اسی وجہ سے ) ذوالیدین (یعنی ہاتھوں والا کے لقب سے) پکارا جاتا تھا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) بھول گئے ہیں یا نماز ہی میں کمی ہوگئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے" پھر (صحابہ سے مخاطب ہوئے اور ) فرمایا " کیا تم بھی یہی کہتے ہو جو ذوالیدین کہہ رہے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ " جی ہاں یہی بات ہے" اور یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آئے اور جو نماز (یعنی دو رکعت) چھوٹ گئی تھی اسے پڑھا اور سلام پھیر کر تکبیر کہی اور حسب معمول سجدوں جیسا یا ان سے بھی کچھ طویل سجدہ کیا اور پھر تکبیر کہہ کر سر اٹھایا " لوگ ابن سیرین سے پوچھنے لگے کہ " پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ خبر ملی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ " پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا " اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔
اور صحیح البخاری ومسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذوالیدین کے جواب میں ) لم انس ولم تقصر (یعنی نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے) کے بجائے یہ فرمایا کہ " جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے" انہوں نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس میں سے کچھ ضرور ہوا ہے۔"

تشریح
فتح الباری میں اس حدیث کی بہت لمبی چوڑی شرح کی گئی ہے اگر اس کو یہاں نقل کی جائے تو بات بڑی لمبی ہو جائے گی البتہ اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ اس حدیث کے بارے میں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلا اشکال تو یہ ہے کہ علماء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ خبر میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہونا ناممکن ہے اور افعال میں بھی اختلاف ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ذوالیدین کے جواب میں جو یہ فرمایا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہی ہوئی ہے " کیا خلاف واقعہ نہیں ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر میں بھی سہو ہو سکتا تھا۔
اس کا جواب مختصر طریقہ پر یہ ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو ہونا ان خبروں میں نا ممکن ہے جو تبلیغ شرائع ، دینی علم اور وحی الہٰی سے متعلق ہیں نہ کہ تمام خبروں میں۔
دوسرا یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افعال بھی سرزد ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو بھی کی مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ جو رکعتیں باقی رہ گئیں تھی انہیں کو پورا کر لیا ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ مفسد نماز وہ کلام و افعال ہیں جو قصدا واقع ہوئے ہوں نہ کہ وہ کلام و افعال جو سہوا ہوگئے ہوں جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے ۔ لیکن چونکہ یہ جواب نہ صرف یہ کہ خود اپنے اندر جھول رکھتا ہے بلکہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے ہاں مطلقا کلام مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصدا صادر ہوا ہو یا سہوا۔ اس لئے علماء حنفیہ کے نزدیک اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ نماز میں کلام اور افعال کا جواز منسوخ نہیں ہوا تھا۔
حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ نماز میں کلام مطلقاً مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصدا ہو یا سہوا مگر ان کے ہاں اتنی گنجائش بھی ہے کہ نماز میں جو کلام امام یا مقتدی سے نماز کی کسی مصلحت کے پیش نظر صادر ہوا ہوگا وہ مفسد نماز نہیں ہوگا جیسا کہ حدیث مذکورہ میں پیش آمدہ صورت ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو جب حضرت ابن سیرین لوگوں کے سامنے بیان کر چکے تو ان سے بطریق استفہام اکثر لوگوں نے پوچھا کہ کیا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ثم سلم بھی کہا تھا گویا ان لوگوں کے پوچھنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا یا پہلے کیا تھا اس کے جواب میں ابن سیرین نے کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں تو یہ الفاظ مجھے یاد نہیں پڑتے، ہاں حضرت عمران ابن حصین نے یہی حدیث مجھ سے روایت کی ہے ان کی روایت میں ثم سلم کے الفاظ موجود ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا اور میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ثم سلم کے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ عمران ابن حصین ہی کی روایت سے اس جگہ لایا ہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں