مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1197

عورتوں کے لئے نماز تہجد کا ذکر

راوی:

عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتِ اسْتَےْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَےْلَۃً فَزِعًا ےَقُوْلُ سُبْحَانَ اللّٰہِ مَاذَا اُنْزِلَ اللَّےْلَۃَ مِنَ الْخَزَآئِنِ وَمَاذَا اُنْزِلَ مِنَ الْفِتَنِ مَنْ ےُّوْقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ ےُرِےْدُ اَزْوَاجَہُ لِکَیْ ےُصَلِّےْنَ رُبَّ کَاسِےَۃٍ فِی الدُّنْےَا عَارِےَۃٌ فِی الْاٰخِرَۃِ۔(صحیح البخاری)

" اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز رات کو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر یہ کہتے ہوئے بیدار ہوگئے کہ سبحان اللہ ! آج کی رات کس قدر خزانے اتارے گئے ہیں اور کس قدر فتنے نازل کئے گئے ہیں، ہے کوئی جو ان حجروں والیوں کو اٹھا دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ازواج مطہرات سے تھی کہ وہ (اٹھ کر ) نماز پڑھیں تاکہ رحمت الٰہی حاصل کر سکیں اور عذاب و فتنوں سے بچ سکیں کیونکہ اکثر عورتیں دنیا میں تو کپڑے پہننے والی ہیں لیکن آخرت میں ننگی ہوں گی۔ " (صحیح البخاری )

تشریح
حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ جو خزانے اور مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں مقدر ہو چکے تھے کہ کس امتی کو کتنا مال و زر ملے گا اور کسی امتی کی قسمت میں کتنی دولت لکھی ہے اس رات کو ان کا اترنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گیا تھا اس طرح اس رات کو جتنے فتنے مقدر ہو چکے تھے وہ بھی اس رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی سے معلوم ہو گئے تھے۔
ملا علی قاری اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں " خزانے سے مراد رحمت الٰہی اور فتنے سے مراد اس کا عذاب ہے۔
عورتوں کے لئے وعید : حدیث کے آخری جز کے کئی مطلب ہیں اول یہ کہ اکثر عورتیں دنیا میں تو طرح طرح کے اور عمدہ سے عمدہ کپڑے پہنیں اور ان پر فخر و مباہات کریں گی حالانکہ ان کی حالت یہ ہوگی کہ حکم الٰہی کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ آخرت میں نیک اور اچھے اعمال سے خالی ہوں گی ۔ دوم یہ کہ اکثر عورتیں دنیا میں نیند کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی یعنی نیند کی غفلت کی وجہ سے اللہ کی یاد سے غافل ہو نگی جس کا نیتجہ یہ ہوگا کہ آخرت میں اچھے درجات اور بڑائیوں سے خالی ہوں گی ، سوم یہ کہ اکثر عورتیں جسم کو ظاہر کرنے والے ایسے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی کہ وہ دنیا میں لباس پوش ہوں گی مگر آخرت کے حکم کے اعتبار سے ننگی ہوں گی یعنی جو کپڑے دیکھنے میں عمدہ خوبصورت اور باریک معلوم ہوتے ہیں جیسے کہ جالی اور نائیلون وغیرہ کے کپڑے کہ جن کا عورتوں کے لئے استعمال کرنا ازروئے شرع ممنوع ہے ایسے کپڑوں والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔
اس حدیث سے ان عورتوں کو خاص طور پر عبرت حاصل کرنی چاہیے جو آج کے فیشن زدہ دور میں کپڑوں کے معاملے میں انتہائی بے راہ روی اور غیر شرعی طریقہ اختیار کئے ہوئے اور ایسے ایسے کپڑے استعمال کرتی ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کی مرضی کے خلاف اور آخرت کے عذاب کا موجب ہیںَ
مائیں اور بہنیں کان کھول کر سن لیں کہ دنیا چاہے جتنی فیشن زدہ ہو جائے ، تہذیب و تمدن چاہے جتنے عروج پر پہنچ جائیں اور انسان کی ذہنی و فکری اور عملی جولانیاں چاہے چاند کو مسخر کر لیں ، اسلام اور پیغمبر اسلام کے وہ فرمان جو آج سے چودہ سو سال پہلے جاری ہوئے تھے آج بھی پوری طرح موجود ہیں، ان کی اہمیت اور ان پر عمل کرنے کی شدت کسی حال میں بھی ختم نہیں ہو سکتی ، اسلامی اور شرع احکام کا دقیانوسیت کے الفاظ سے مذاق اڑا کر ، فیشن کا نام لے کر آج بھلے کوئی عورت اپنی ظاہری زندگی کو اور دنیا کی نظروں میں جاذب نظر دیدہ زیب اور ماڈرن معزز بنا لے مگر اسے یاد رکھ لینا چاہیے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی اور موجودہ فیشن کے فانی رنگ و روپ کو ختم کر کے ایک دن اسے اس اللہ کی بارگاہ میں پہنچنا ہے جو غفار و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ جبار و قہار بھی ہے اور پھر انہیں وہاں اپنی بد عملیوں کا جواب دینا ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں