مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1221

دین آسان چیز ہے اسے اپنے عمل سے سخت اور ہیبت ناک نہ بناؤ

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الدِّےْنَ ےُسْرٌ وَّلَنْ ےُّشَآدَّ الدِّےْنَ اَحَدٌ اِلَّا غَلَبَہُ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَاَبْشِرُوْا وَاسْتَعِےْنُوا بِالْغَدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَئٍ مِّنَ الْدُّلْجَۃِ۔(صحیح البخاری)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بیشک دین آسان ہے لیکن جو آدمی دین میں سختی کرتا ہے دین اس پر غالب آجاتا ہے لہٰذا (دینی) امور میں میانہ روی اور اپنی طاقت کے مطابق عمل اختیار کرو اور جنت و سلامتی نیز اللہ رب العزت کے انعامات و اکرامات کے ساتھ خوش رہو (کیونکہ اللہ رب لعزت تو تھوڑے ہی سے عمل پر) اگر وہ مداومت اور خلوص نیت کے ساتھ ہو تو بہت زیادہ ثواب دیتا ہے اور صبح کے وقت شام کے وقت نیز کچھ رات کے آخری حصے میں بھی اللہ رب العزت سے مدد مانگو۔" (صحیح البخاری )

تشریح
اس حدیث میں صفائی کے ساتھ اعلان کیا جا رہا ہے کہ دین بہت آسان ہے انسانی مزاج و فطرت کے عین مطابق ہے اور انسان کی ذہنی، فکری ، عملی قوتیں بڑے سکون کے ساتھ اس کی ہمنوا بن سکتی ہے۔ ہاں اس کا تو کوئی علاج نہیں کہ کوئی آدمی اپنی طرف سے بے جا پابندیاں عائد کر کے اعمال کی زیادتی کرے اور دین شریعت میں اپنی طرف سے باتیں بڑھا کر خود ہی اپنے اوپر مشکلات و تنگیوں کو مسلط کرے۔
چنانچہ یہاں صراحت کے ساتھ حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ دین کے احکام بہت آسان مقرر کئے ہیں اس لئے رہبانیت کے طور پر ان احکام کو اپنے لئے سخت و ہیبت ناک نہ بناؤ۔
" دین اس پر غالب آجاتا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے نفس پر غیر واجب باتیں واجب کر لیتا ہے اور مشکل طریقوں سے عبادت کی مشغولیت اختیار کر لینا ہے تو دین اس پر غالب آجاتا ہے یعنی وہ بعد میں دین کے حق کی ادائیگی سے عاجز ہو جاتا ہے اس طرح وہ مغلوب اور دین غالب ہو جاتا ہے۔
قَارِبُوْا کا مطلب یہ ہے کہ سہولت اور آسانیوں کے ساتھ دینی امور کے قریب ہو جاؤ اور اپنے اوپر بے جا پابندیوں کو عائد کر کے اور سختی و مشکلات میں اپنے آپ کو مبتلا کر کے دین سے بعد اختیار نہ کرو۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ قَارِبُوْا دراصل سَدِّدُوْا (یعنی میانہ روی اختیار کرو) کی تاکید ہے لہٰذا جو معنی سَدِّدُوْا کے ہیں وہی معنی قَارِبُوْا کے ہیں بعض حضرات نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اللہ جل شانہم کا قرب ڈھونڈو۔"
بہر حال حدیث کا اصل یہ ہے کہ بہت زیادہ عبادت نہ کرو کہ ہر وقت اپنے آپ کو عبادت کی محنت و مشقت ہی میں مبتلا رکھو بلکہ ان تین اوقات میں عبادت کر لینے ہی کو غنیمت جانو یعنی دن کے ابتدائی حصے میں، دن کے آخری حصے میں اور رات کے آخری حصے میں، یہ تہجد کی نماز کی طرف اشارہ ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں