مصیبت کے وقت نماز نفل
راوی:
وَعَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا حَزِنہ، اَمْرٌ صَلّٰی۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتے تو (نفل ) نماز پڑھتے۔" (ابوداؤد)
فائدہ :
مطلب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی رنج و غم ہوتا یا کوئی مصیبت رونما ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنج و غم اور مصیبت سے چھٹکارا پاتے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے طور پر نماز پڑھتے کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے۔
آیت (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ) 2۔ البقرۃ : 153)
" اے اہل ایمان ! صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو۔"
علماء لکھتے ہیں کسی رنج اور مصیبت کے وقت نماز نفل پڑھنے کی حکمت یہ ہے کہ جب انسان نماز میں مشغول ہوتا ہے اس کے سامنے عالم ربوبیت کھل جاتا ہے اور جب اس پر عالم ربوبیت منکشف ہو جاتا ہے تو دنیا از خود اس کی نظروں میں بالکل حقیر و بے وقعت ہو جاتی ہے جس کا نیتجہ یہ ہوتا ہے ۔ کہ اس کے دل میں دنیا کے ہونے ( یعنی دنیا کی راحت و آسائش ) اور دنیا کے نہ ہونے (یعنی دنیا کی تکلیف و مصیبت ) کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں رہتا۔ لہٰذا اگر دنیا اسے نہیں ملتی بایں طور کہ وہ دنیا کے رنج و غم اور تکلیف و مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو متوحش اور پریشان نہیں ہوتا اگر دنیا اسے نہیں ملتی ہے بایں طور کہ دنیا کی راحت و چین اور آرام و آسائش اسے حاصل ہوتی ہے تو وہ خوش نہیں ہوتا جیسا کہ یہ عارفانہ مقولہ کہا گیا ہے۔" اگر ہے تو خوشی نہیں اور اگر نہیں تو غم نہیں۔"