مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تراویح کا بیان ۔ حدیث 1300

نماز حاجت

راوی:

وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ اَبِی اَوْفٰی قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَتْ لَہ، حَاجَۃٌ اِلَی اﷲِ اَوْ اِلٰی اَحَدٍ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ فَلْیَتَوَضَّأْ فَلْیُحْسِنِ الْوُضُوْءَ ثُمَّ لِیُصَلِّ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ لِیُثْنِ عَلَی اﷲِ تَعَالٰی وَیُصَلِّ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ لِیَقُلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفَرِتِکَ وَالْغَنِیْمَۃِ مِنْ کُلِّ بِرٍّوَ السَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَا تَدَعْ لِیْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہ، وَلَا ھَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہ، وَلَا حَاجَۃً ھِیَ لَکَ رَضِیً اِلَّا قَضَیْتَھَا یَا اَرْحَمُ الرَّحِمِیْنَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔

" اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰ راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس آدمی کو اللہ تعالیٰ یا کسی آدمی کی طرف کوئی حاجت ہو (یعنی خواہ دینی حاجت) تو اسے چاہیے کہ (پہلے) وضو کرے اور اچھا وضو (یعنی پورے آداب کی رعایت کے ساتھ) کرے اور دو رکعت نماز پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کر کے اور نبی و صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر یہ دعا پڑھے۔ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ چشم پوشی اور بخشش کرنے والے کے پاک ہے اللہ جو مالک ہے عرش عظیم کا، اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سارے جہان کا پروردگار ہے ، اے اللہ میں تجھ سے ان چیزوں کو مانگتا ہوں جن پر رحمت ہوتی ہے اور جو تیری بخشش کا سبب ہوتی ہیں اور مانگتا ہوں اپنا حصہ ہر نیکی سے اور بچنا چاہتا ہوں ہر گناہ سے ، اے اللہ ! میرے کسی گناہ کو بے بخشے ہوئے اور کسی غم کو بے دور کئے ہوئے اور کسی جماعت کو جو تیرے نزدیک پسند ہو، بے پورا کئے ہوئے نہ چھوڑا اے بہت رحم کرنے والے رحم کرنے والوں سے۔" (امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے)

تشریح
جب کسی کو کوئی حاجت یا ضرورت پیش آئے تو خواہ وہ حاجت بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے ہو یا بالواسطہ کسی بندے سے متعلق ہو مثلاً کسی کو نوکری کی خواہش ہو، یا کسی سے نکاح کرنا چاہتا ہو، یا ایسی کوئی اور ضرورت ہو، جسے کسی آدمی سے پورا کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی تعریف و بڑائی بیان کر کے درود شریف پڑھے جو نماز میں التحیات کے بعد پڑھا جاتا ہے اس کے بعد حدیث میں مذکورہ دعا پڑھے۔ دعا کے بعد اس کی جو حاجت و ضرورت ہو، اسے پروردگار کی بارگاہ میں پیش کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے مقصد برآری کے لئے دعا کرے۔
حاجت روائی اور مقصد برآری کے لئے یہ نماز کہ جسے اصطلاح میں " صلوۃ الحاجت" یعنی نماز حاجت کہتے ہیں کہ بہت مجرب ہے بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنی ضرورتوں میں اس طریقے سے نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت بیان کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے مقصد اور ان کی حاجت کو پورا فرمایا ۔" (علم الفقہ)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حاجت مند کو اپنی حاجت روائی اور اس نماز و دعا کو پڑھنے کے لئے شنبہ کے دن صبح کے وقت کو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " جو آدمی شنبہ کے دن صبح کے وقت (نماز حاجت اور اس کی دعا پڑھ کر اپنی حلال و جائز حاجت کو طلب کرے تو میں اس کی حاجت روائی کا ضامن ہوں۔" (ملا علی قاری)
یوں تو یہ نماز اور یہ دعا تمام حاجتوں اور ضرورتوں کے لئے ہے لیکن قوت حافظہ کی اگر حاجت ہو تو اس کے لئے بطورخاص الگ نماز ہے جس کو صلوٰۃ الحافظ (حافظ کی نماز) کہتے ہیں جو حصن حصین میں مذکور ہے اس کی اردو شرح میں اس نماز کی روایت بالتفصیل لکھی گئی ہے وہاں ملا حظہ فرمایا جا سکتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں