مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ جمعہ کا بیان ۔ حدیث 1337

جمعہ کی وجہ تسمیہ

راوی:

وَعَنْ اَبِیُ ھَرْیَرَۃَ قَالَ قِیْلَ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِاَیِّ شَیْءٍ سُمِّیَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ قَالَ لِاَنَّ فِیْھَا طُبِعَتْ طِیْنَۃُ اَبِیْکَ اٰدَمُ وَفِیْھَا الصَّعْقَۃُ وَالْبَعْثَۃُ وَفِیْھَا البَطْشَۃُ وَفِی اٰخِرِ ثلَاَثِ سَاعَاتٍ مِنْھَا سَاعَۃٌ مَنْ دَعَا اﷲَ فِیْھَا اسْتُجِیْبُ لَہُ۔ (رواہ احمد بن حنبل)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جمعہ کا نام جمعہ کس سبب سے رکھا گیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وجہ سے کہ اس دن تمہارے باپ آدم کی مٹی جمع کی گئی اور اس کا خمیر بنایا گیا ۔ اس دن (پہلا) صور پھونکا جائے گا (کہ اس کی آواز سے تمام دنیا والے مر جائیں گے) اور (دوسرا) صور پھونکا جائے گا ( کہ اس کی آواز سے تمام مردے دوبارہ زندہ ہو جائیں گے) اور اس دن ( قیامت) کی سخت داروگیر ہوگی نیز اس دن کے آخر کی تین ساعتوں میں ایک ایسی ساعت ہے (یعنی جمعے کی آخری ساعت ) کہ اس وقت جو کوئی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے اس کی دعا قبول ہوگی۔" (احمد بن حنبل)

تشریح
علامہ یحییٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اس دن کا نام جمعہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ مذکورہ بالا ایسی عظیم الشان چیزیں اس دن میں جمع کر دی گئی ہیں۔
لیکن یہ بات بھی مخفی نہ رہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ یہ تمام باتیں بہ ہیت مجموعی " جمعہ" کی وجہ تسمیہ کو ظاہر کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک خود بھی اپنی اپنی جگہ جمعیت اور اجتماعیت کے مفہوم پر حاوی ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں