خطبہ کے وقت امر بالعروف اور نہی عن المنکر بھی ممنوع ہے
راوی:
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِکَ ےَوْمَ الْجُمُعَۃِ اَنْصِتْ وَالاِْمَامُ ےَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جمعہ کے دن جب امام خطبہ پڑھ رہا ہو تو اگر تم نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے یہ بھی کہا " چپ رہو" تو تم نے بھی لغو کام کیا۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
خطبہ کے وقت چونکہ کسی بھی قسم کے کلام اور گفتگو کی اجازت نہیں ہے ۔ اس لئے اس وقت ایسے آدمی کو جو گفتگو کر رہا ہو خاموش ہو جانے کے لئے کہنا بھی اس حدیث کے مطابق " لغو" ہے اس سے معلوم ہوا کہ خطبہ کے وقت مطلقاً کلام اور گفتگو ممنوع ہے اگرچہ وہ کلام و گفتگو امر بالمعروف (اچھی بات کے کرنے) اور نہی عن المنکر ) بری بات سے روکنے ہی سے متعلق کیوں نہ ہو۔ ہاں اس وقت یہ فریضہ اشارہ کے ذریعے ادا کیا جا سکتا ہے لیکن زبان سے کہنے کی اجازت نہیں ہے۔
خطبے کے وقت خاموشی اختیار کرنے کا مسئلہ : جب امام خطبہ پڑھ رہا ہو اس وقت خاموش رہنا اکثر علماء کے نزدیک واجب ہے امام ابوحنیفہ بھی انہیں میں شامل ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک مستحب ہے چنانچہ امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے لیکن مذاہب لدنیہ" میں لکھا ہے اس مسئلہ میں امام شافعی کے دو قول ہیں ایک قول وجوب کا ہے اور دوسرا استحاب کا، امام ابوحنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ جس وقت امام خطبے کے لئے چلے اس وقت بھی نماز شروع کرنا یا کلام کرنا دونوں ممنوع ہیں اگر کوئی آدمی نماز (مثلا سنت وغیرہ) پڑھ رہا ہو اور امام خطبہ شروع کر دے تو اس آدمی کو دو رکعت پوری کر کے نماز توڑ دینی چاہیے، مگر حضرت امام ابویوسف اور امام محمد کے نزدیک امام کے خطبے کے لئے چلنے اور خطبہ شروع کرنے کے درمیان اسی طرح اس کے خطبہ ختم کرنے کے بعد سے تکبیر تحریمہ شروع ہو جانے تک کلام کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ کراہیت کلام اس وجہ سے ہے کہ کلام میں مشغول رہنے والا آدمی خطبہ نہیں سن سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ مواقع خطبہ سننے کے نہیں ہیں اس لئے ایسے اوقات میں کلام کرنا جائز ہے۔
مگر حضرت امام ابوحنیفہ ان دونوں کی ممانعت کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ حدیث ہے اذا خرج الا مام فلا صلوۃ ولا کلام (جب امام خطبہ کے لئے چلے تو اس وقت نہ نماز جائز ہے اور نہ کلام ) نیز صحابہ کے اقوال بھی اسی طرح ہیں۔ اور صحابی کے قول کو حجت اور دلیل قرار دینے میں نہ صرف یہ کہ کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ قول صحابی کی تقلید و پیروی واجب ہے علماء نے لکھا ہے کہ خطبے کے وقت صاحب ترتیب کے لئے قضا نماز پڑھنی مکروہ نہیں ہے۔
اس آدمی کے بارے میں جو امام سے دور ہو اور خطبے کی آواز اس تک نہ پہنچ رہی ہو علماء کے مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح اور مختار قول یہ ہے کہ وہ آدمی بھی گفتگو و کلام نہ کرے بلکہ اس کے لئے بھی خاموش رہنا واجب ہے۔
خطبہ کے وقت کے آداب : علماء نے صراحت کی ہے کہ جس وقت امام خطبہ پڑھ رہا ہو اس وقت کھانا پینا یا کتابت وغیرہ دنیوی امور میں مشغول ہونا حرام ہے سلام اور چھینک کا جواب دینا بھی مکروہ ہے اس سلسلہ میں در مختار میں ایک کلمہ لکھا گیا ہے ۔ کُلُّ شَیْئٍ حُرِّمَ فِیْ الصَّلٰوۃِ حُرِّمَ فِیْ الْخُطْبَۃِ یعنی جو چیزیں نماز میں حرام ہیں وہ خطبے کے وقت بھی حرام ہیں۔ خطبے کے وقت درود بھی زبان سے نہیں بلکہ دل میں کہہ لیا جائے۔ خطبے کے وقت کسی آدمی کو اس کی خلاف شرع حرکت سے روکنا زبان سے تو مکروہ ہے لیکن ہاتھ یا آنکھ کے اشارے سے اسے منع کر دینا مکروہ نہیں ہے۔
بہر حال اس حدیث کی باب سے وجہ مناسبت یہ ہے کہ اس باب کا مقتضی یہ ہے کہ جمعے کو صبح سویرے جانا ثواب کی زیادتی کا باعث ہے اور کوئی آدمی صبح سویرے سے مسجد پہنچ گیا مگر اس نے وہاں امام کے خطبہ پڑھتے وقت کسی کو زبان سے نصیحت کی تو گویا اس سے ایک لغو کام صادر ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سویرے سے مسجد میں پہنچ جانے کا ثواب جاتا رہا۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد میں صبح سویرے پہنچ جائے اور وہاں ایسی کوئی حرکت نہ کی جائے جس سے ثواب جاتا رہے۔