مسجد میں کسی کو اس کی جگہ سے نہ ہٹانا چاہیے
راوی:
وَعَنْ جَابِرٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےُقِےْمَنَّ اَحَدُکُمْ اَخَاہُ ےَوْمَ الْجُمُعَۃِ ثُمَّ ےُخَالِفُ اِلٰی مَقْعَدِہٖ فَےَقْعُدُ فِےْہِ وَلٰکِنْ ےَّقُوْلُ افْسَحُوْا۔(صحیح مسلم)
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم میں سے کوئی آدمی جمعے کے دن (جامع مسجد میں پہنچ کر) اپنے مسلمان بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے اور وہاں خود بیٹھنے کا ارادہ نہ کرے۔ ہاں (لوگوں سے) یہ کہہ دے کے (بھائیو) جگہ کشادہ کر دو۔" (صحیح مسلم)
تشریح
مسئلہ یہ ہے کہ کسی آدمی کو ہٹا کر اس کی جگہ پر اس کی رضاء کے بغیر بیٹھنا حرام ہے اور اگر رضا حاصل ہو تو وہ بھی حقیقۃ ہونی چاہیے۔ نہ کہ کسی خوف و حیاء کی وجہ سے ہو اس طرح اگر کوئی آدمی کسی کو پہلے سے مسجد میں بھیج دے تاکہ وہ وہاں اس کے لئے جگہ روک لے تو اس آدمی کو بھی اس جگہ سے اٹھانا حرام ہے۔ کیونکہ کوئی آدمی بھی محض کسی کو بھیج کر جگہ رکوا لینے سے مسجد وغیرہ جیسی مقدس جگہوں کا حقدار نہیں ہوتا۔ بلکہ جو آدمی جس جگہ بیٹھا ہوا ہے وہ اس جگہ پہلے پہنچ جانے کی وجہ سے اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے اگرچہ وہاں پہنچنے پر اس کی ہی نیت کیوں نہ ہو کہ جس آدمی نے مجھے بھیجا ہے اس کے لئے میں جگہ روک رہا ہوں اور یہاں وہی آدمی آکر بیٹھے گا چنانچہ خود اس آدمی کے لئے اپنی جگہ سے اپنے بھیجنے والے کے لئے اٹھنا اور اس کے ساتھ اس سلسلہ میں ایثار کا معاملہ کرنا مکروہ ہے۔ بشرطیکہ وہ آدمی اس سے فضیلت میں کم درجے کا ہو یعنی اگر کوئی اس سے زیادہ افضل ہو تو اس کے ساتھ ایثار کا معاملہ کرنا مکروہ نہیں ہے اور اس کے لئے وہاں سے اٹھنا مکروہ اس لئے ہے کہ عبادات میں بلاعذر مکروہ ہے۔
جہاں تک اس آیت (وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰ ي اَنْفُسِهِمْ) 59۔ الحشر : 9) کا تعلق ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ایثار کرنے والوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں وہ ایثار مراد ہے جس کا تعلق حظ نفس (یعنی طبع ضروریات و خواہشات ) سے ہو۔
اب تو غالباً کہیں یہ دستور نہیں ہے مگر پہلے زمانے میں بعض اصحاب ثروت و دولت جن کی زندگی کا بنیادی مقصد دوسروں پر ظلم کرنا تھا اپنے خادموں اور ملازموں کو جامع مسجد میں بھیجتے تھے اور وہاں پہنچ کر پہلے سے بیٹھے ہوئے کمزور و غریب لوگوں کو مار مار کر اور دھکے دے دے کر اٹھا دیتے تھے اور اپنے آقاوں کے لئے جگہ بنا لیتے تھے اسی زمانے کے کسی عارف سے اس غلط طریقے کے بارے میں جب کہا گیا تو انہوں نے نہایت تاسف کے ساتھ یہ عارفانہ مقولہ ارشاد فرمایا کہ " جب ان کی عبادت کا یہ حال ہے تو ان کے ظلم و گناہ کا کیا عالم ہوگا؟
افسحوا (جگہ کشادہ کرو) اس طرح اس وقت کہنا چاہے جب کہ جگہ میں کشادگی کی گنجائش ہو ورنہ بصورت دیگر یہ بھی نہیں کہنا چاہے اور نہ لوگوں کو تنگ کرنا چاہے بلکہ جہاں بھی جگہ مل جائے وہیں نماز پڑھ لے اگرچہ مسجد کے دروازوں ہی میں جگہ کیوں نہ ملے۔
باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ رغبت دلائی جا رہی ہے کہ نماز پڑھنے والا جامع مسجد میں صبح سویرے پہنچ جائے تاکہ کسی کو اٹھانے ہٹانے کی ضرورت نہ پڑے۔