مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ جمعہ کا بیان ۔ حدیث 1377

مختصر مگر پر تایثر خطبہ خطیب کی دانائی کی علامت ہے

راوی:

وَعَنْ عَمَّارٍص قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقُوْلُ اِنَّ طُوْلَ صَلٰوۃِ الرَّجُلِ وَقَصْرَ خُطْبَتِہٖ مَئِنَّۃٌ مِّنْ فِقْھِہٖ فَاَطِےْلُوا الصَّلٰوۃَ وَاقْصُرُوا الْخُطْبَۃَ وَاِنَّ مِنَ الْبَےَانِ سِحْرًا۔(صحیح مسلم)

" اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " لمبی نماز اور مختصر خطبہ پڑھنا آدمی کی دانائی کی علامت ہے۔ لہٰذا تم نماز کو طویل اور خطبہ کو مختصر کرو کیونکہ بعض بیان سحر (کی تایثر لئے ہوئے ہوتا) ہے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
خطبہ کی حالت میں لوگوں کی توجہ مخلوق (یعنی خطبہ پڑھنے والے) کی طرف ہوتی ہے جب کہ نماز کی حالت میں توجہ کا مرکز خالق(یعنی اللہ تعالیٰ) کی ذات ہوتی ہے ۔ چنانچہ حدیث بالا بڑے ہی بلیغ انداز میں یہ بتانا چاہتی ہے کہ انسان کی سمجھ داری اور اس کی دانائی کا تقاضہ یہ ہونا چاہیے کہ اس حالت کو زیادہ دراز اور طویل کیا جائے جس میں بندے کی توجہ اپنے خالق کی طرف ہو اور اس حالت کو مختصر کیا جائے جس میں توجہ مخلوق کی طرف منعطف ہو رہی ہو۔ لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں نماز طویل کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز سنت کے موافق ہو۔ یعنی نماز پڑھنے کے سلسلے میں جو درجے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول اور ثابت ہے نہ تو اس سے طویل ہو اور نہ اس سے مختصر ہی ہو ۔ اس طرح اس حدیث میں اور اوپر والی حدیث میں مطابقت پیدا ہو جائے گی۔
و ان من البیان سحرا (کیونکہ بعض بیان سحر ہے) گویا یہ خطبے کو مختصر کرنے کے سلسلے میں دلیل بیان کی جا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ ایسا پڑھنا چاہیے جو قَلَّ وَ دَلَّ کا پورا پورا مصداق ہو۔ یعنی اس کے الفاظ مختصر ہوں مگر حقائق و معنی کے دریا اپنے اندر سموئے ہوئے ہو۔ کیونکہ جس طرح سحر کے مختصر ترین الفاظ میں بہت زیادہ تایثر ہوتی ہے اسی طرح اس بیان اور اس تقریر میں بھی جو الفاظ کے معنی کے اعتبار سے جامع و مانع ہو، ایک عظیم تایثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے سامعین کے قلوب ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف مائل و منتقل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا حدیث کے ان الفاظ میں بیان و تقریر کی تعریف بھی ہے اور مذمت بھی بایں طور کہ اگر کوئی بیان سا معین کے قلوب و دماغ کو برائی کی طرف سے نیکی کی طرف مائل کر دے تو وہ اچھا ہے اور جو بیان سامعین کے ذہن و فکر کو نیکی کے راستہ سے ہٹا کر برائی کے راستہ پر موڑ دینے والا ہو وہ برا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں