رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے
راوی:
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَخْطُبُ قَائِمًا ثُمَّ ےَجْلِسُ ثُمَّ ےَقُوْمُ فَےَخْطُبُ قَآئِمًا فَمَنْ نَبَّاَکَ اَنَّہُ کَانَ ےَخْطُبُ جَالِسًا فَقَدْ کَذَبَ فَقَدْ وَاللّٰہِ صَلَّےْتُ مَعَہُ اَکْثَرَ مِنْ اَلْفَیْ صَلٰوۃٍ۔مسلم
" حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر (پہلا ) خطبہ ارشاد فرماتے پھر بیٹھتے، پھر (دوسرا ) خطبہ (بھی ) کھڑے ہو کر ارشاد فرماتے لہٰذا تم سے اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے تو بلا شبہ وہ آدمی جھوٹا ہے اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں۔" (صحیح مسلم)
تشریح
" دو ہزار سے زائد نمازوں " سے صرف جمعے کی نمازیں مراد نہیں ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جمعے اور جمعے کے علاوہ دوسری دوہزار سے زائد نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پڑھی ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا جمعہ مدینہ میں آکر پڑھا ہے اور مدینہ میں آپ کی کل مدت اقامت دس سال تھی لہٰذا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں تمام جمعوں کی تعداد پانچ سو سے زائد نہیں ہوتی بہرحال حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معیت و رفاقت کی کثرت بیان کرنا ہے۔
شرح منیہ میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ جو شہر جنگ و جدل سے اور بذریعہ تلوار فتح ہوا ہو جیسا کہ مکہ فتح ہوا تھا تو وہاں خطیب تلوار کے ساتھ خطبہ پڑھے اور جس شہر کے باشندے بخوشی حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں جیسے مدینہ تو وہاں بغیر تلوار کے خطبہ پڑھنا چاہیے ۔ بنا بیع میں لکھا ہے کہ دوسرا خطبہ پہلے خطبہ کی بہ نسبت کم آواز سے پڑھنا چاہیے۔